غزل - دولت پہ ہر ایک نے نظر کی -- شاہین فصیح ربانی

شاہین فصیح ربانی

غزل

دولت پہ ہر ایک نے نظر کی
توقیر نہیں رہی بشر کی

ہر سمت سراب رکھ دیئے ہیں
نیت ہے خراب رہگزر کی

سیدھے سے غرض بیان کر دو
باتیں نہ کرو اِدھر اُدھر کی

گو رات طویل ہو گئی ہے
رکھتے ہیں امید ہم سحر کی

صدیوں سے بیان کر رہا ہوں
تمہید ہے عمرِ مختصر کی

اللہ کو کیا جواب دیں گے
غفلت میں جو زندگی بسر کی

نازل ہوں فصیحؔ کے قلم پر
خواہش ہے حروفِ معتبر کی
 
محترم الف عین صاحب!

آپ کا بہت شکریہ۔
اس مصرعے میں لفظ “پنجے“ ٹائپ ہونے سے رہ گیا تھا لیکن اس کے باوجود یہ مصرعہ گاڑ لیے کے مقام پر وزن سے خارج ہو رہا ہے، اس لیے اس مصرعے کو تبدیل کر دیا ہے؛
گو رات طویل ہو گئی ہے۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ہر سمت سراب رکھ دیئے ہیں
نیت ہے خراب رہگزر کی


بہت خوب فصیح صاحب،
اچھی غزل ہے۔ داد قبول کیجے۔
تاخیر کے لئے معذرت!
 
Top