کاشفی
محفلین
غزل
(شاد عارفی)
دُنیا کی اب حالت یہ ہے دنیا کے یہ نقشے ہیں
اپنا جن کو کہتے ہیں ہم دشمن اُن سے اچھے ہیں
میرے حال پہ ہنسنے والو! مانگو مستقبل کی خیر
مجبوروں پر ہنسنے والے اکثر روتے دیکھے ہیں
آپ کو میرے صحرا کے کانٹو ں پر بستر کا کیا درد
آپ تو پھولوں کے دامن میں نکہت بن کر سوتے ہیں
دل کے گم ہونے کا مجھ کو رنج نہیں افسوس نہیں
جو کھوتے ہیں وہ پاتے ہیں ، وہ پاتے ہیں جو کھوتے ہیں
میرے تصور کی کوتاہی بھی ہے کتنی لطف فزا
اکثر کھایا ہے یہ دھوکا پہلو میں وہ بیٹھے ہیں
مجھ کو الفت ان سے ہے اور ان کو غیر کی چاہت ہے
“الٹے بانس بریلی لانا“ شاد اسی کو کہتے ہیں
(شاد عارفی)
دُنیا کی اب حالت یہ ہے دنیا کے یہ نقشے ہیں
اپنا جن کو کہتے ہیں ہم دشمن اُن سے اچھے ہیں
میرے حال پہ ہنسنے والو! مانگو مستقبل کی خیر
مجبوروں پر ہنسنے والے اکثر روتے دیکھے ہیں
آپ کو میرے صحرا کے کانٹو ں پر بستر کا کیا درد
آپ تو پھولوں کے دامن میں نکہت بن کر سوتے ہیں
دل کے گم ہونے کا مجھ کو رنج نہیں افسوس نہیں
جو کھوتے ہیں وہ پاتے ہیں ، وہ پاتے ہیں جو کھوتے ہیں
میرے تصور کی کوتاہی بھی ہے کتنی لطف فزا
اکثر کھایا ہے یہ دھوکا پہلو میں وہ بیٹھے ہیں
مجھ کو الفت ان سے ہے اور ان کو غیر کی چاہت ہے
“الٹے بانس بریلی لانا“ شاد اسی کو کہتے ہیں