غزل - دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں - فیصل عجمی

محمد وارث

لائبریرین
دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں
روشنی میں بدل رہا ہوں میں

ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جانے دو
آئنے سے نکل رہا ہوں میں

رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے
جیسے پتھّر میں پل رہا ہوں میں

ہر خزانے کو مار دی ٹھوکر
اور اب ہاتھ مل رہا ہوں میں

خوف غرقاب ہو گیا فیصل
اب سمندر پہ چل رہا ہوں میں

(فیصل عجمی)

بشکریہ - اردو منزل
 

ایم اے راجا

محفلین
واہ واہ کیا خوب کہا ہے فیصل نے واہ واہ لاجواب، شیئر کرنے کے لیئے شکریہ وارث بھائی۔ مندرجہ ذیل اشعار تو دل کو چھو گئے، واہ واہ

دکھ نہیں ہے کہ جل رہا ہوں میں
روشنی میں بدل رہا ہوں میں

رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے
جیسے پتھّر میں پل رہا ہوں میں

ہر خزانے کو مار دی ٹھوکر
اور اب ہاتھ مل رہا ہوں میں
 

آصف شفیع

محفلین
ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جانے دو
آئینے سے نکل رہا ہوں میں

بہت اچھا شعر ہے۔ مجھے یہ شعر بہت پسند تھا۔ میں نے اسے اپنی ڈائری میں لکھا ہوا ہے۔ فیصل عجمی کے یہ شعر بھی دیکھیے۔

پھر یوں ہوا کہ ہاتھ سے کشکول گر پڑا
خیرات لے کے مجھ سے چلا تک نہیں گیا

آج معلوم ہوا بارِ ندامت کیا ہے
آنکھ جھک جاتی ہے کس طرح طلب سے پہلے

زندہ رہنے کیلیے کیا نہیں کرنا پڑتا
میں سمندر میں اترتا جو اترنا پڑتا

وہ مجھے چھوڑ گیا زہر بھرے چشمے پر
اس کو معلوم تھا اور میں نے اتر کر جانا

اس کو جانے دے، اگر جاتا ہے
زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے
چند خوشیوں کو بہم کرنے میں
آدمی کتنا بکھر جاتا ہے
 

مغزل

محفلین
بہت شکریہ وارث بھائی۔
سہل غزل کہی گئی ہے ، جو عام قاری کو متاثر کرسکتی ہے
مگر اس میں ’’ شاعر‘‘ کہیں موجود نہیں ہے ۔ مکھی پہ مکھی
بٹھانے کا عمل لگتا ہے۔۔
رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے
جیسے پتھّر میں پل رہا ہوں میں
اس شعر کیا غور کیجئے کہ احباب نے پسند بھی کیا۔۔۔۔۔۔مگر یہ بات ذرا مشاہدہ
طلب ہے کہ پتھر میں کیڑے کو رزق مالک خود دیتا ہے،کوئی تگ و دو نہیں کرنی
پڑتی کیڑے کو ۔۔ تو کیا یہ مشکل امر ہے ؟؟
باقی جو فرد اشعار پیش کیے گئے ان ( چند) میں شعری للک نظر آتی ہے۔بہت خوب
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ سب کا بہت شکریہ۔

مغل صاحب، سہل غزل کہنا اگر اتنا ہی آسان ہوتا ہے ہر شاعر سہل ممتنع کا بادشاہ ہوتا لیکن آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے۔

پسند اپنی اپنی ہوتی ہے، لہذا آپ کی پسند پر کیا عرض کروں کہ کچھ کہوں گا تو غلط ہی ہوگا۔ اپنی پسند آپ کو بتا دیتا ہوں، مطلع لا جواب ہے، اس میں فزکس کا ایک آفاقی قانون بیان ہوا ہے۔ پہلے میں اگر قانون ہے تو دوسرے میں اتنا ہی بلند تخیل ہے۔ واہ واہ لا جواب!
 

آصف شفیع

محفلین
سہل غزل کہی گئی ہے ، جو عام قاری کو متاثر کرسکتی ہے
مگر اس میں ’’ شاعر‘‘ کہیں موجود نہیں ہے ۔ مکھی پہ مکھی
بٹھانے کا عمل لگتا ہے۔۔
رزق ملتا ہے کتنی مشکل سے
جیسے پتھّر میں پل رہا ہوں میں
اس شعر کیا غور کیجئے کہ احباب نے پسند بھی کیا۔۔۔۔۔۔مگر یہ بات ذرا مشاہدہ
طلب ہے کہ پتھر میں کیڑے کو رزق مالک خود دیتا ہے،کوئی تگ و دو نہیں کرنی
پڑتی کیڑے کو ۔۔ تو کیا یہ مشکل امر ہے ؟؟
باقی جو فرد اشعار پیش کیے گئے ان ( چند) میں شعری للک نظر آتی ہے۔بہت خوب[/quote]

سہل غزل کہنا آسان نہیں ہوتا۔ سہلِ ممتنع کے اشعار کو مکھی پہ مکھی بٹھانے کا عمل نہیں کہہ سکتے۔ ہر کوئی ایسے اشعار تو نہٰن کہہ سکتا۔ میں نے اوپر فیصل کے کچھ اور اشعار بھی پوسٹ کیے تھے۔ کتنے رواں ہیں اور ان میں شعریت بھی ہے۔ اگر پتھر میں کیڑے کو رزق ملنا آسان عمنل ہے تو اس کی مثال کیوں دی جاتی ہے۔
 
Top