عرفان علوی
محفلین
احبابِ گرامی، سلام عرض ہے ۔ ایک تازہ غزل پیشِ خدمت ہے ۔ یہ ایک ذو قافیتین یعنی دو قافیوں والی غزل ہے ۔ دیکھئے شاید کسی قابل ہو ۔ حسب معمول آپکی گراں قدر رائے کا انتظار رہیگا ۔
رات كے ڈھلنے پہ کچھ ایسے اجالا آئے گا
چاند کو سورج کی خاطر مار ڈالا جائے گا
ہر سویرے نے کیا ہے قتل اِس امید کا
آج اک اچھی خبر اخبار والا لائے گا
ماں سے کہہ دو کر دے روٹی اپنے اشکوں ہی سے تر
اس کا بچہ کب تلک سوکھا نوالہ کھائے گا
سیم و زَر کا ذکر ہی کیا، ایسا وقت آنے کو ہے
جب ہوا و آب پر انسان تالا پا ئے گا
میں یہ سمجھوں گا کہ میرِ شہر کی سازش ہے یہ
اب دھنویں کا شہر پر بادل جو کالا چھائے گا
اینٹ گارے پر نہیں قائم عقائد کی اساس
کوئی کیا مسجد، کلیسا یا شوا لہ ڈھائے گا
کیا عجب عؔابد جو ہیں اتنے الم دِل میں مرے
جو پرندہ پالتو ہوگا سو پالا جائے گا
نیازمند،
عرفان عؔابد
رات كے ڈھلنے پہ کچھ ایسے اجالا آئے گا
چاند کو سورج کی خاطر مار ڈالا جائے گا
ہر سویرے نے کیا ہے قتل اِس امید کا
آج اک اچھی خبر اخبار والا لائے گا
ماں سے کہہ دو کر دے روٹی اپنے اشکوں ہی سے تر
اس کا بچہ کب تلک سوکھا نوالہ کھائے گا
سیم و زَر کا ذکر ہی کیا، ایسا وقت آنے کو ہے
جب ہوا و آب پر انسان تالا پا ئے گا
میں یہ سمجھوں گا کہ میرِ شہر کی سازش ہے یہ
اب دھنویں کا شہر پر بادل جو کالا چھائے گا
اینٹ گارے پر نہیں قائم عقائد کی اساس
کوئی کیا مسجد، کلیسا یا شوا لہ ڈھائے گا
کیا عجب عؔابد جو ہیں اتنے الم دِل میں مرے
جو پرندہ پالتو ہوگا سو پالا جائے گا
نیازمند،
عرفان عؔابد
آخری تدوین: