فرحان محمد خان
محفلین
غزل
راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا
جی کا داغ اُجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا
شہروں کو ویران کرے گا اپنے آنچ کی تیزی سے
ویرانوں میں مست البیلے وحشی پُھول کھلائے گا
ہاں یہی شخص گداز و نازک ، ہونٹوں پر مسکان لیے
اے دل اپنے ہاتھ لگاتے پتھر کا بن جائے گا
دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا
تیرا نور ظہور سلامت ، اک دن تجھ پر ماہِ تمام
چاند نگر کا رہنے والا چاند نگر لکھ جائے گا
راز کہاں تک راز رہے گا منظرِ عام پہ آئے گا
جی کا داغ اُجاگر ہو کر سورج کو شرمائے گا
شہروں کو ویران کرے گا اپنے آنچ کی تیزی سے
ویرانوں میں مست البیلے وحشی پُھول کھلائے گا
ہاں یہی شخص گداز و نازک ، ہونٹوں پر مسکان لیے
اے دل اپنے ہاتھ لگاتے پتھر کا بن جائے گا
دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا
تیرا نور ظہور سلامت ، اک دن تجھ پر ماہِ تمام
چاند نگر کا رہنے والا چاند نگر لکھ جائے گا
ابنِ انشا