غزل : رنج دل سے نکل گئے سارے

رنج دل سے نکل گئے سارے
ایسی چاہت سے آملے سارے

ڈھل گئی رات ، اٹھ چکی محفل
اب تم آئے ہو ! جب گئے سارے

نام اسکا ہے یا کوئی خوشبو
بام و در تک مہک اٹھے سارے

کیسے پلٹوں کہ میری رہ تکتے
کھو چکے ہوں گے راستے سارے

یہ تو دیکھیں کہ کتنا چاہتے ہیں
چاہنے والے آپ کے سارے

میں تو سب کو بھلا چکا تھا مگر
یاد کرنے لگے مجھے سارے

صرف میری مخالفت کے سبب
ایک آواز ہو گئے سارے

ویسے ہر زخم یاد تھا ، لیکن
وقت نے پھر بھلا دیے سارے

زندگی کا نہیں کوئی ضامن
گھات میں ہوں گے حادثے سارے

پہلے ہنستے تھے ، بات کرتے تھے
پھر “مسلمان “ ہو گئے سارے !

آج برسوں پرانے دوست ملے۔!
ہنس پڑے مجھ میں بچپنے سارے

زندگی مہرباں بھی ہوتی ہے
لوگ ہوتے نہیں برے سارے

عمر بھر جو ملے خدا بن کر
واہموں کی دکان تھے سارے

پھول جتنے بھرے ہوں شاخوں پہ
ٹوٹ جاتے ہیں شاخ سے سارے

ظلم یہ تھا کہ میرے یہ قاتل
نام لیوا خدا کے تھے سارے

شہسواروں میں پھر کوئی نہ اٹھا
قتل گاہوں میں جل بجھے سارے

وہ جو نکلے تھے لانے تبدیلی
توڑ کر خواب گھر گئے سارے

ٹل ہی جاتے ہیں ہجر یار کے دن
خوف ہوتے ہیں رات کے سارے

میری آنکھوں پہ اپنے ہاتھ رکھو
ان سے لے جاؤ رتجگے سارے

یار یاراں تھے جان و دل تھے کبھی
اور بے روزگار تھے سارے

(رامش عثمانی)
 

محمداحمد

لائبریرین
صرف میری مخالفت کے سبب
ایک آواز ہو گئے سارے
زندگی مہرباں بھی ہوتی ہے
لوگ ہوتے نہیں برے سارے
پھول جتنے بھرے ہوں شاخوں پہ
ٹوٹ جاتے ہیں شاخ سے سارے
ٹل ہی جاتے ہیں ہجر یار کے دن
خوف ہوتے ہیں رات کے سارے

بہت خوب!

اچھے اشعار ہیں۔
 

La Alma

لائبریرین
پہلے ہنستے تھے ، بات کرتے تھے
پھر “مسلمان “ ہو گئے سارے !

ج برسوں پرانے دوست ملے۔!
ہنس پڑے مجھ میں بچپنے سارے

عمر بھر جو ملے خدا بن کر
واہموں کی دکان تھے سارے

ٹل ہی جاتے ہیں ہجر یار کے دن
خوف ہوتے ہیں رات کے سارے
بہت عمدہ .
 
Top