غزل: رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے ٭ تابش

ایک طرحی غزل احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر:

رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے
نہ پوری ہو دعا، ایسا نہیں ہے

پکارو اس کو ہر رنج و الم میں
وہ ہو جائے خفا، ایسا نہیں ہے

شکستہ ناؤ امت کی سنبھالے
کوئی بھی ناخدا ایسا نہیں ہے؟

چلے آؤ، اسے کوفہ نہ سمجھو
"مرا شہرِ وفا ایسا نہیں ہے"

پڑے جس میں پرکھنے کی ضرورت
محبت سلسلہ ایسا نہیں ہے

جفاؤں پر خفا ہوتا ہے تابشؔ
مگر چاہے برا، ایسا نہیں ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 
ایک طرحی غزل احبابِ محفل کی بصارتوں کی نذر:

رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے
نہ پوری ہو دعا، ایسا نہیں ہے

پکارو اس کو ہر رنج و الم میں
وہ ہو جائے خفا، ایسا نہیں ہے

شکستہ ناؤ امت کی سنبھالے
کوئی بھی ناخدا ایسا نہیں ہے؟

چلے آؤ، اسے کوفہ نہ سمجھو
"مرا شہرِ وفا ایسا نہیں ہے"

پڑے جس میں پرکھنے کی ضرورت
محبت سلسلہ ایسا نہیں ہے

جفاؤں پر خفا ہوتا ہے تابشؔ
مگر چاہے برا، ایسا نہیں ہے

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
ماشاءاللہ ،
کیا عمدہ کلام پیش کیا ،
سلامت رہیں ۔
 

فلسفی

محفلین
جزاک اللہ خیر عدنان بھائی
ہمارے ایک محترم بھائی کی خواہش ہے کہ کچھ نہ کچھ کہنے کی کوشش کرتے رہا جائے، اسی کا سلسلہ ہے یہ۔ :)
بالکل سوچوں پر بھی زنگ لگ جایا کرتے ہیں۔ الفاظ کے صابن اور اظہار کے پانی سے دھوتے رہنا چاہیے۔ آپ کو تو ویسے بھی وراثت میں جو حصہ عطا ہوا اس کے تسلسل کو برقرار رکھنا ضروری ہے بلکہ آپ کی ذمے داری ہے۔
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم تابش بھائی -کیسے ہیں ؟

چلے آؤ، اسے کوفہ نہ سمجھو
"مرا شہرِ وفا ایسا نہیں ہے"

واہ -"کوفی لا یوفی" کو کیا خوب نظم کیا ہے -

پڑے جس میں پرکھنے کی ضرورت
محبت سلسلہ ایسا نہیں ہے

واہ -

جفاؤں پر خفا ہوتا ہے تابشؔ
مگر چاہے برا، ایسا نہیں ہے

خوب -نکاح ثانی کی بات کہیں چل نکلے تو یہ شعر بھجوا دیجئے گا -:LOL:

باقی شروع کے اشعار کے متعلق دو ایک باتیں عرض کروں اگر اجازت دیں -کیا کہا ؟... اجازت ہے -شکریہ :)

رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے
نہ پوری ہو دعا، ایسا نہیں ہے

پہلے مصرع میں "سدا" یا "ہمیشہ" کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مطلب برآوری کے لئے -
پکارو اس کو ہر رنج و الم میں
وہ ہو جائے خفا، ایسا نہیں ہے

آپ کہنا غالباً یہ چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ پکارنے سے خفا نہ ہو گا -لیکن مصرعوں میں باہم ربط کمزور ہے جس وجہ سے یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا -

شکستہ ناؤ امت کی سنبھالے
کوئی بھی ناخدا ایسا نہیں ہے؟

یہاں بھی میرا خیال ہے دوسرے مصرع کا انداز سوالیہ سے زیادہ نافیہ ہے ،لفظ "بھی" کی وجہ سے -

بھائی !میری باتوں کو سنجیدگی سے مت لیجیو-:)

آپ کے مزید کلام کا منتظر
خیر اندیش
 
السلام علیکم تابش بھائی -کیسے ہیں ؟
و علیکم السلام
الحمد للہ
چلے آؤ، اسے کوفہ نہ سمجھو
"مرا شہرِ وفا ایسا نہیں ہے"

واہ -"کوفی لا یوفی" کو کیا خوب نظم کیا ہے -

پڑے جس میں پرکھنے کی ضرورت
محبت سلسلہ ایسا نہیں ہے

واہ -

جفاؤں پر خفا ہوتا ہے تابشؔ
مگر چاہے برا، ایسا نہیں ہے

خوب -نکاح ثانی کی بات کہیں چل نکلے تو یہ شعر بھجوا دیجئے گا -:LOL:
بہت شکریہ۔ پسند فرمانے پر شکر گزار ہوں۔ :)
باقی شروع کے اشعار کے متعلق دو ایک باتیں عرض کروں اگر اجازت دیں -کیا کہا ؟... اجازت ہے -شکریہ
دو، ایک کیا، دس بیس باتیں عرض کیجیے۔ کھلی اجازت ہے، ہمیشہ کے لیے۔ :)
رہے گی ابتلا، ایسا نہیں ہے
نہ پوری ہو دعا، ایسا نہیں ہے

پہلے مصرع میں "سدا" یا "ہمیشہ" کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مطلب برآوری کے لئے -
ایک متبادل
رہے مشکل سدا، ایسا نہیں ہے
پکارو اس کو ہر رنج و الم میں
وہ ہو جائے خفا، ایسا نہیں ہے

آپ کہنا غالباً یہ چاہتے ہیں کہ وہ زیادہ پکارنے سے خفا نہ ہو گا -لیکن مصرعوں میں باہم ربط کمزور ہے جس وجہ سے یہ مفہوم واضح نہیں ہوتا -
ہر رنج و الم میں اسے پکارو، یہ نہ سمجھو کہ وہ خفا ہو جائے گا
بظاہر تو کمی محسوس نہیں کو رہی۔
شکستہ ناؤ امت کی سنبھالے
کوئی بھی ناخدا ایسا نہیں ہے؟

یہاں بھی میرا خیال ہے دوسرے مصرع کا انداز سوالیہ سے زیادہ نافیہ ہے ،لفظ "بھی" کی وجہ سے -
سوالیہ نشان اسی وضاحت کے لیے لگایا۔ یہ ٹھیک ہے کہ کیا کے بغیر استفہامی انداز میں کمی محسوس ہو رہی ہے۔ کچھ بہتر متبادل سمجھ آنے تک کام چلاتا ہوں۔ :)
بھائی !میری باتوں کو سنجیدگی سے مت لیجیو-:)
اصلاح ہی تو سب سے زیادہ سنجیدگی سے لی جانے والی چیز ہے۔ :)
آپ کے مزید کلام کا منتظر
خیر اندیش
کوشش رہے گی کہ تک بندیاں پیش کرتا رہوں

محبتوں پر ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیر۔ :)
 
Top