عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک نئی غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
زخم ہر دِل میں پائے جاتے ہیں
کچھ ہی لیکن دکھائے جاتے ہیں
زندگی بےوفا سہی ، لیکن
ناز اِس كے اٹھائے جاتے ہیں
اک سراسر فریب ہے دنیا
ہَم جہاں آزمائے جاتے ہیں
دیپ جلتے ہیں صرف محلوں میں
شہر یوں بھی سجائے جاتے ہیں
کچھ نہ کچھ بد نما نکلتا ہے
جب بھی پردے اٹھائے جاتے ہیں
کشتیاں کیوں بنیں نہ کاغذ کی
ریت كے گھر بنائے جاتے ہیں
خود کو پاتے ہیں اجنبی سا کیوں
ہَم جہاں بھی بلائے جاتے ہیں
خوف کھاتے ہیں لوگ غیروں سے
دھوکے اپنوں سے کھائے جاتے ہیں
رات دن ان کا ساتھ رہتا ہے
کب بھلا غم كے سائے جاتے ہیں
یاد کر كے کسی كے قول و قسم
ہَم تو بس مسکرائے جاتے ہیں
دِل میں آہیں چُھپا كے بھی عابدؔ
گیت خوشیوں كے گائے جاتے ہیں
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک نئی غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
زخم ہر دِل میں پائے جاتے ہیں
کچھ ہی لیکن دکھائے جاتے ہیں
زندگی بےوفا سہی ، لیکن
ناز اِس كے اٹھائے جاتے ہیں
اک سراسر فریب ہے دنیا
ہَم جہاں آزمائے جاتے ہیں
دیپ جلتے ہیں صرف محلوں میں
شہر یوں بھی سجائے جاتے ہیں
کچھ نہ کچھ بد نما نکلتا ہے
جب بھی پردے اٹھائے جاتے ہیں
کشتیاں کیوں بنیں نہ کاغذ کی
ریت كے گھر بنائے جاتے ہیں
خود کو پاتے ہیں اجنبی سا کیوں
ہَم جہاں بھی بلائے جاتے ہیں
خوف کھاتے ہیں لوگ غیروں سے
دھوکے اپنوں سے کھائے جاتے ہیں
رات دن ان کا ساتھ رہتا ہے
کب بھلا غم كے سائے جاتے ہیں
یاد کر كے کسی كے قول و قسم
ہَم تو بس مسکرائے جاتے ہیں
دِل میں آہیں چُھپا كے بھی عابدؔ
گیت خوشیوں كے گائے جاتے ہیں
نیازمند ،
عرفان عابدؔ