غزل: زعم رہتا تھا پارسائی کا ٭ محمد تابش صدیقی

ایک غزل استادِ محترم اعجاز عبید صاحب اور کچھ دیگر احباب کی نظرِ ثانی کے بعد احباب کے ذوق کی نذر۔ بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔

زعم رہتا تھا پارسائی کا
ہو گیا شوق خود نمائی کا

چھین لیتا ہے تابِ گویائی
ڈر زمانے میں جگ ہنسائی کا

ناؤ طوفاں سے جب گزر نہ سکے
ہیچ دعویٰ ہے ناخدائی کا

خوش نہ ہو، اے ستم گرو! کہ حساب
وقت لیتا ہے پائی پائی کا

بادشاہی کا وہ کہاں رتبہ
ہے جو اس در پہ جبہ سائی کا

نیّتِ حاضری تو کر تابشؔ
غم نہ کر اپنی نارسائی کا

٭٭٭
محمد تابش صدیقی
 

کاشف اختر

لائبریرین
آخری تدوین:
بہت اعلی تابش بھائی واہ!








بہترین! عمدہ
جزاک اللہ کاشف بھائی۔
میں نے دونوں املا دیکھے ہیں، فیصلہ نہیں کر پایا کہ کون سا درست ہے۔
ماشااللہ! شاندار غزل ہے۔
بہت شکریہ عرفان بھائی۔
بہت خوبصورت غزل۔ داد قبول فرمائیے۔
محبت ہے آپ کی خلیل بھائی
 
Top