محمد تابش صدیقی
منتظم
ایک غزل استادِ محترم اعجاز عبید صاحب اور کچھ دیگر احباب کی نظرِ ثانی کے بعد احباب کے ذوق کی نذر۔ بہتری کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔
زعم رہتا تھا پارسائی کا
ہو گیا شوق خود نمائی کا
چھین لیتا ہے تابِ گویائی
ڈر زمانے میں جگ ہنسائی کا
ناؤ طوفاں سے جب گزر نہ سکے
ہیچ دعویٰ ہے ناخدائی کا
خوش نہ ہو، اے ستم گرو! کہ حساب
وقت لیتا ہے پائی پائی کا
بادشاہی کا وہ کہاں رتبہ
ہے جو اس در پہ جبہ سائی کا
نیّتِ حاضری تو کر تابشؔ
غم نہ کر اپنی نارسائی کا
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
ہو گیا شوق خود نمائی کا
چھین لیتا ہے تابِ گویائی
ڈر زمانے میں جگ ہنسائی کا
ناؤ طوفاں سے جب گزر نہ سکے
ہیچ دعویٰ ہے ناخدائی کا
خوش نہ ہو، اے ستم گرو! کہ حساب
وقت لیتا ہے پائی پائی کا
بادشاہی کا وہ کہاں رتبہ
ہے جو اس در پہ جبہ سائی کا
نیّتِ حاضری تو کر تابشؔ
غم نہ کر اپنی نارسائی کا
٭٭٭
محمد تابش صدیقی