پروین شاکر غزل - زندگی سے نظر ملاؤ کبھی - پروین شاکر

محمد وارث

لائبریرین
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی

اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)



۔
 

سارہ خان

محفلین
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی

اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا ہے الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)

۔


اچھا انتخاب وارث بہت خوب ۔۔۔:)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی
ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمیدِ وفا
ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی

اب جفا کی صراحتیں بیکار
بات سے بھر سکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں
ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی

اندھے ذہنوں سے سوچنے والو
حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں
آنسوؤں سے بجھا ہے الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا
کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی

(پروین شاکر)

۔


واہ۔۔بہت خوب :)



ہاتھ سے رک سکا بہاؤ کبھی
 
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی - پروین شاکر

زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمید وفا

ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی!

اب جفا کی صراحتیں بیکار

بات سے بھرسکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں !

ہاتھ سے رُک سکا بہاؤ کبھی

اندھے ذہنوں سے سوچنے والو

حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں

آنسوؤں سے بُجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا

کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی!

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی

دلوں کے بند دریچے کُھلے، ہَوا آئی

سرک گئے تھے جو آنچل، وہ پھر سنور سے گئے

کُھلے ہُوئے تھے جو سر، اُن پہ پھر رِدا آئی

اُتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں

یہ کس کو چُھو کے مرے شہر میں صبا آئی

اُسے پکارا تو ہونٹوں پہ کوئی نام نہ تھا

محبتوں کے سفرمیں عجب فضا آئی

کہیں رہے وہ، مگر خیریت کے ساتھ رہے

اُٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دُعا آئی
 

نایاب

لائبریرین
زندگی سے نظر ملاؤ کبھی

ہار کے بعد مسکراؤ کبھی

ترکِ اُلفت کے بعد اُمید وفا

ریت پر چل سکی ہے ناؤ کبھی!

اب جفا کی صراحتیں بیکار

بات سے بھرسکا ہے گھاؤ کبھی

شاخ سے موجِ گُل تھمی ہے کہیں !

ہاتھ سے رُک سکاہے بہاؤ کبھی

اندھے ذہنوں سے سوچنے والو

حرف میں روشنی ملاؤ کبھی

بارشیں کیا زمیں کے دُکھ بانٹیں

آنسوؤں سے بُجھا الاؤ کبھی

اپنے اسپین کی خبر رکھنا

کشتیاں تم اگر جلاؤ کبھی!

سمندروں کے اُدھر سے کوئی صدا آئی

دلوں کے بند دریچے کُھلے، ہَوا آئی

سرک گئے تھے جو آنچل، وہ پھر سنور سے گئے

کُھلے ہُوئے تھے جو سر، اُن پہ پھر رِدا آئی

اُتر رہی ہیں عجب خوشبوئیں رگ و پے میں

یہ کس کو چُھو کے مرے شہر میں صبا آئی

اُسے پکارا تو ہونٹوں پہ کوئی نام نہ تھا

محبتوں کے سفرمیں عجب فضا آئی

کہیں رہے وہ، مگر خیریت کے ساتھ رہے

اُٹھائے ہاتھ تو یاد ایک ہی دُعا آئی
السلام علیکم
محترم دل پاکستانی جی
لاجواب
بہت خوب

نایاب
 
بہت خوب کلام شیئر کیا ہے جناب! بہت شکریہ
(یہ کیا آپ نے دو غزلیں اکٹھی کر دیں۔ علیحدہ کر دیتے تو اچھا تھا۔
اور میرا خیال ہے اس مصرعے میں ’ہے‘ زائد ہے۔ چیک کرکے درست کر دیں۔
’ہاتھ سے رُک سکاہے بہاؤ کبھی‘)
ایک بار پھر پوسٹ کرنے کا شکریہ!
 
شکریہ جناب نایاب صاحب اور کاشفی صاحب۔

شکریہ عمران صاحب۔ جلدی کے کام میں کچھ ایسے ہی مضحکہ خیز صورتحال ہو جاتی ہے۔ بہرحال معذرت
 

محمد وارث

لائبریرین
دیکھ لیا سعد، لیکن آپ کو فرار ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ یہاں پوسٹ کرتے رہیئے، اور اگر ہو سکے تو دوسری غزل علیحدہ سے پھر پوسٹ کر دیں!
 
Top