محمداحمد
لائبریرین
سرور عالم راز صاحب، اردو شاعری کے اساتذہ میں سے ہیں۔ آج اُن کی یہ غزل ایک جگہ دیکھنے کا اتفاق ہوا تو خیال آیا کہ محفل کے دوستوں کے حضور پیش کی جائے۔
غزل
زہے نصیب! بہ رنگِ دوا دیے تو نے
جو درد بھی دیے ، حد سے سوا دیے تو نے
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹا دیے تو نے
وہ رازِ عاشقی پیارے سکھا دیے تو نے
نگاہِ شوق پہ پہرے بٹھا دیے تو نے
ہزار شہرِ خرابات ڈھا دیے تو نے
ترے سوا نہیں جچتا کوئی نگاہوں میں
وہ ساغرِ مےِ دو آتشہ دیے تو نے
خوشی سے ہم نے جنہیں حرزِ جاں بنایا تھا
کچھ ایسے رنج بھی نامِ خُدا دیے تو نے
بھلا ہو تیرا غمِ یادِ رفتگانِ شوق
قدم قدم گُل و لالہ کھلا دیے تو نے
یہ عارفانہ تجاہل، یہ رسم ِ کم نگہی
طرح طرح سے فریبِ وفا دیے تو نے
ہر ایک ذرّہ ہے آئینہ میری حیرت کا
حجاب سارے یہ کیسے اُٹھا دیے تو نے
ادا ہو شکر ترا کس طرح شبِ ہجراں
کہ یاد کتنے فسانے دلا دیے تو نے
لگا کے روگ محبت کا کس لئے سرورؔ
"چراغِ عقل و خرد خود بجھا دیے تو نے"
سرور عالم رازؔ
غزل
زہے نصیب! بہ رنگِ دوا دیے تو نے
جو درد بھی دیے ، حد سے سوا دیے تو نے
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹا دیے تو نے
وہ رازِ عاشقی پیارے سکھا دیے تو نے
نگاہِ شوق پہ پہرے بٹھا دیے تو نے
ہزار شہرِ خرابات ڈھا دیے تو نے
ترے سوا نہیں جچتا کوئی نگاہوں میں
وہ ساغرِ مےِ دو آتشہ دیے تو نے
خوشی سے ہم نے جنہیں حرزِ جاں بنایا تھا
کچھ ایسے رنج بھی نامِ خُدا دیے تو نے
بھلا ہو تیرا غمِ یادِ رفتگانِ شوق
قدم قدم گُل و لالہ کھلا دیے تو نے
یہ عارفانہ تجاہل، یہ رسم ِ کم نگہی
طرح طرح سے فریبِ وفا دیے تو نے
ہر ایک ذرّہ ہے آئینہ میری حیرت کا
حجاب سارے یہ کیسے اُٹھا دیے تو نے
ادا ہو شکر ترا کس طرح شبِ ہجراں
کہ یاد کتنے فسانے دلا دیے تو نے
لگا کے روگ محبت کا کس لئے سرورؔ
"چراغِ عقل و خرد خود بجھا دیے تو نے"
سرور عالم رازؔ
آخری تدوین: