فرحان محمد خان
محفلین
غزل
ساحل سے واپس ہو لیے سارے صدف رستہ نہ تھا
گم ہو گئے گرداب میں گوہر بکف رستہ نہ تھا
رکھی تھی اک سل راہ میں ہستی کا حاصل راہ میں
آنکھیں تھیں حائل راہ میں دل کی طرف رستہ نہ تھا
خاموش تھے اہلِ سخن چپ چاپ تھا پتوں کا بن
کیسی لگن کیسی چبن کیسا شرف رستہ نہ تھا
زخموں سے رِستا تھا لہو آساں نہ تھا کارِ رفو
نا پید تھے نم اور نمو خوش تھے حذف رستہ نہ تھا
صحرا سے گھر تک دُھول تھی، راہِ سفر تک دُھول تھی
حدِ نظر تک دُھول تھی ، چاروں طرف رستہ نہ تھا
سارے بدن پر تھا کلف ، گویا ہوا تھی برطرف
چلتا تھا میں سوئے نجف، بَجتی تھی دف رستہ نہ تھا
زنجیر تھے اہلِ جنوں اخترؔ نگر پر تھا فسوں
اُلٹے ہوئے کچھ آئینے تھے صف بہ صف رستہ نہ تھا
اختر عثمان
ساحل سے واپس ہو لیے سارے صدف رستہ نہ تھا
گم ہو گئے گرداب میں گوہر بکف رستہ نہ تھا
رکھی تھی اک سل راہ میں ہستی کا حاصل راہ میں
آنکھیں تھیں حائل راہ میں دل کی طرف رستہ نہ تھا
خاموش تھے اہلِ سخن چپ چاپ تھا پتوں کا بن
کیسی لگن کیسی چبن کیسا شرف رستہ نہ تھا
زخموں سے رِستا تھا لہو آساں نہ تھا کارِ رفو
نا پید تھے نم اور نمو خوش تھے حذف رستہ نہ تھا
صحرا سے گھر تک دُھول تھی، راہِ سفر تک دُھول تھی
حدِ نظر تک دُھول تھی ، چاروں طرف رستہ نہ تھا
سارے بدن پر تھا کلف ، گویا ہوا تھی برطرف
چلتا تھا میں سوئے نجف، بَجتی تھی دف رستہ نہ تھا
زنجیر تھے اہلِ جنوں اخترؔ نگر پر تھا فسوں
اُلٹے ہوئے کچھ آئینے تھے صف بہ صف رستہ نہ تھا
اختر عثمان
آخری تدوین: