غزل (سادہ بھی جو تھا خُوبرو وہ بن سنور کے تو)

محترم اساتذہ کرام کو اصلاح کی درخواست کے ساتھ:
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
مفعول فاعلات مفاعیل فاعِلن
گر مطلق العنان ہے انسان بن گیا
بندہ نہیں رہا ہے وہ حیوان بن گیا

معتوب عمر بھر رہی جس کی سخن وری
اس کا بھی مقبرہ ہے عالی شان بن گیا

آیا جو لب پہ جام شبِ ہجر دشت میں
جنگل کی تیرگی میں شبستان بن گیا

سادہ بھی جو تھا خوبرو وہ بن سنور کے تو
خوباں کی سلطنت کا ہے سلطان بن گیا

غنچہ بھی خوب تھا تو تھی کلی بھی خوب تر
وہ پھول تو ہے شانِ گلستان بن گیا

قسمت پہ جب نوحہ کناں تھا نامراد تھا
محنت سے اپنے فن کی وہ پہچان بن گیا

خورشید خندہ زن تھا مری دل لگی پہ جو
میرے خلوص کا ہے قدر دان بن گیا
 
الف عین ، ظہیراحمدظہیر ، محمّد احسن سمیع :راحل: ، یاسر شاہ ، سید عاطف علی
معتوب عمر بھر رہی جس کی سخن وری
اس کا بھی مقبرہ ہے عالی شان بن گیا
اساتذہ سے راہنمائی کی درخواست ہے کہ پہلے مصرعے میں معتوب۔ ملعون - مطعون میں سے زیادہ درست کونسا لفظ ہوگا کیونکہ سخن ور معتوب ہو سکتا ہے سخن وری پتہ نہیں معتوب ہو سکتی ہے کہ نہیں- ہاں شاید سخن وری ملعون یا مطعون ہو سکتی ہے-
یہ خیال غزل پوسٹ کرنے کے بعد میرے ذہن میں آیا ہے- مہربانی کرکے راہنمائی کریں باقی غزل کی اصلاح کے ساتھ
 

الف عین

لائبریرین
یہ پرانے ٹیگ مجھے نہیں ملے
گر مطلق العنان ہے انسان بن گیا
بندہ نہیں رہا ہے وہ حیوان بن گیا
... واضح نہیں

معتوب عمر بھر رہی جس کی سخن وری
اس کا بھی مقبرہ ہے عالی شان بن گیا
... ثانی مصرع بحر سے خارج، عالی شان قافیہ ہی بحر میں نہیں آتا

آیا جو لب پہ جام شبِ ہجر دشت میں
جنگل کی تیرگی میں شبستان بن گیا
.. یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟

سادہ بھی جو تھا خوبرو وہ بن سنور کے تو
خوباں کی سلطنت کا ہے سلطان بن گیا
... پہلا مصرع رواں نہیں ، پھر کہا جائے الفاظ یا ترتیب بدل کر

غنچہ بھی خوب تھا تو تھی کلی بھی خوب تر
وہ پھول تو ہے شانِ گلستان بن گیا
.. پہلا مصرع درست بحر میں نہیں
.. تو کلی بھی تھی خوب تر..... زیادہ رواں اور درست بحر میں ہے

قسمت پہ جب نوحہ کناں تھا نامراد تھا
محنت سے اپنے فن کی وہ پہچان بن گیا
.. یہ بھی پہلا مصرع بحر میں نہیں
قسمت میں جب تھا نوحہ کناں، نا مراد تھا
بحر میں اور زیادہ رواں ہے
مگر مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے

خورشید خندہ زن تھا مری دل لگی پہ جو
میرے خلوص کا ہے قدر دان بن گیا
.. قدر دان وزن میں نہیں آتا
 
یہ پرانے ٹیگ مجھے نہیں ملے
گر مطلق العنان ہے انسان بن گیا
بندہ نہیں رہا ہے وہ حیوان بن گیا
... واضح نہیں
سر میں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسان بے لگام ہو جائے تو وہ بندگی سے خارج ہونے کی وجہ سے انسان نہیں رہتا حیوان بن جاتا ہے-
معتوب عمر بھر رہی جس کی سخن وری
اس کا بھی مقبرہ ہے عالی شان بن گیا
... ثانی مصرع بحر سے خارج، عالی شان قافیہ ہی بحر میں نہیں آتا
معتوب عمر بھر رہی جس کی سخن وری
اب مقبرہ اسی کا ہے ذیشان بن گیا (بھائی عبدالرووف کے شکریے کے ساتھ کیونکہ یہ متبادل ان کا تجویز کیا ہوا ہے)
آیا جو لب پہ جام شبِ ہجر دشت میں
جنگل کی تیرگی میں شبستان بن گیا
.. یہ بھی واضح نہیں ہوا کہ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
سر! میں نے کہنے کی کوشش کی ہے کہ دشت میں ہجر کی شب بے سرو ساماں بیٹھا تھا لیکن جب جام لب پہ آیا تو جنگل کا اندھیرا بھی آراستہ خوابگاہ میں تبدیل ہوگیا-
سادہ بھی جو تھا خوبرو وہ بن سنور کے تو
خوباں کی سلطنت کا ہے سلطان بن گیا
... پہلا مصرع رواں نہیں ، پھر کہا جائے الفاظ یا ترتیب بدل کر
جو سادگی میں خوبرو تھا بن سنور کے تو
خوباں کی سلطنت کا ہے سلطان بن گیا
غنچہ بھی خوب تھا تو تھی کلی بھی خوب تر
وہ پھول تو ہے شانِ گلستان بن گیا
.. پہلا مصرع درست بحر میں نہیں
.. تو کلی بھی تھی خوب تر..... زیادہ رواں اور درست بحر میں ہے
شکریے کے ساتھ آپکا متبادل قبول ہے-
غنچہ بھی خوب تھا تو کلی بھی تھی خوب تر
وہ پھول تو ہے شانِ گلستان بن گیا
قسمت پہ جب نوحہ کناں تھا نامراد تھا
محنت سے اپنے فن کی وہ پہچان بن گیا
.. یہ بھی پہلا مصرع بحر میں نہیں
قسمت میں جب تھا نوحہ کناں، نا مراد تھا
بحر میں اور زیادہ رواں ہے
مگر مفہوم کے اعتبار سے عجیب ہے
جو ابتدائے فن میں تھا بے نام و نامراد
محنت سے اپنے فن کی ہے پہچان بن گیا
خورشید خندہ زن تھا مری دل لگی پہ جو
میرے خلوص کا ہے قدر دان بن گیا
.. قدر دان وزن میں نہیں آتا
خورشید خندہ زن تھا مری دل لگی پہ جو
اب اس کی محفلوں کی میں ہوں جان بن گیا
 

الف عین

لائبریرین
بن گیا ردیف کے ساتھ کوئی بیانیہ جب حال کا لےکر آئیں گے تو 'ہے بن گیا' کی مجہول صورت ہو گی۔ اس وجہ سے روانی باقی نہیں رہتی۔ نثر سے جتنا قریب شعر ہو گا، روانی اتنی ہی بہتر ہوگی
سر! میں نے کہنے کی کوشش کی ہے کہ دشت میں ہجر کی شب بے سرو ساماں بیٹھا تھا لیکن جب جام لب پہ آیا تو جنگل کا اندھیرا بھی آراستہ خوابگاہ میں تبدیل ہوگیا
جنگل نہیں ہوا، کسی مال میں بیٹھےتھےجہاں اچانک دوسروں نے شراب پیش کر دی! اس شعر کو نکال ہی دو

سر میں نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اگر انسان بے لگام ہو جائے تو وہ بندگی سے خارج ہونے کی وجہ سے انسان نہیں رہتا حیوان بن جاتا ہے-
مطلع کے الفاظ سے تو ظاہر نہیں ہوتا یہ مطلب۔نثر میں بھی یوں کہا جائے گا "اگر کوئی انسان مطلق العنان بن جائے تو وہ انسان نہیں، حیوان بن جاتا ہے" اس خیال میں ردیف 'بن گیا' کی گنجائش ہی نہیں۔ ہاں، اگر کلیدی لفظ "اگر" موجود ہو تو شاید یہ مطلب نکالاجاسکے۔ لیکن یہ کہنا کہ وہ بندہ نہیں، حیوان بن جاتا ہے، مفہوم کے اعتبار سے بھی درست نہیں

سادہ بھی جو تھا خوبرو وہ بن سنور کے تو
" بن سنور کے تو" والا حصہ ہی روانی کو متاثر کرتا ہے
"بن سنور کے اور" کہو تو بہتر ہے
سادہ بھی جو حسین تھا، وہ بن سنور کے اور
بہتر ہوگا
باقی اشعار قابلِ قبول ہیں، مگر مقطع اب بھی مجہول ہے
 
Top