غزل : ساغر کی طرح دست بہ دست اتنا چلا میں - اختر عثمان

غزل
ساغر کی طرح دست بہ دست اتنا چلا میں
اب دورِ تہی ظرف ہے اور اِس کا خلا میں

تنہائی مرے سائے سے کترائی سرِ دشت
خود آگ جلی مجھ سے عجب ڈھب سے جلا میں

بڑھتا تھا کوئی ہاتھ جوں ہی سُوئے رگِ گُل
رکھتا تھا بصد شوق وہاں ہنس کے گَلا میں

اک جی تھا کہ خوںبار ہُوا طعنہ بہ طعنہ
ہر بات بَلا ، اور ہدفِ تیرِ بَلا میں

بس حدِ نمو یہ کہ شگوفہ تھا سرِ شاخ
باغیچۂ نوروز میں پھولا نہ پَھلا میں

کچھ کے لیے موجود تھا کچھ کے لیے مفقود
اُس بزمِ سخن دوست میں معنٰی سا پلا میں

کیا سادہ دلی تھی کہ تمنا تھی اُسی کی
اتنا بھی نہ سوچا کہ وہ گُل اور بھلا میں !

پٹخا گیا وحشت میں سرِ عرصۂ دنیا
کج طور کے ہاتھوں کسی صُورت نہ ڈَھلا میں
اخترعثمان
 
Top