غزل: سب تصور مرے دنیا کے کتابی نکلے

کاشف سعید

محفلین
السلام و علیکم،

ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔

سب تصور مرے دنیا کے کتابی نکلے
میں وہابی جنہیں سمجھا تھا شرابی نکلے

جیسے روتا رہا ہو کوئی مسلسل اندر
ہنس رہا تھا میں مگر آنسو گلابی نکلے

دل کی پھر پوری عمارت گرا دینا لوگو
اس کی تعمیر میں جو اک بھی خرابی نکلے

جوں ہی عادت ہو گئی پتھروں پہ چلنے کی
راستے جتنے بھی پھر نکلے سحابی نکلے

میں ہی برساتا رہا اپنے بدن پر نیزے
مرے اندر سے ہی سو تیر جوابی نکلے

شکریہ!

(تقطیع کے لیے دیکھیئے: http://aruuz.com/mypoetry/poetry/34)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
یہاں کچھ عرض کرنے کا جی چاہا، حالانکہ ہم محض طالب علم ہیں ۔۔۔

سب تصور مرے دنیا کے کتابی نکلے
میں وہابی جنہیں سمجھا تھا شرابی نکلے
÷÷ مرے دنیا کے یا مری دنیا کے ؟ ۔۔۔ وہابی قابل غور ہے ۔۔۔ چاہے آپ اس سے اللہ والا مراد لیں مگر ہمارا ذہن ایک مخصوص فرقے کی طرف جاتا ہے۔۔ جیسے کتنے سالوں سے کی جگہ کتنے برسوں سے لکھنا زیادہ بہتر اور فصیح سمجھا جاتا ہے۔۔۔ سالوں سے ذہن بیوی کے بھائیوں کی طرف چلا جائے گا۔۔۔ اگر آپ کی وہی مراد ہے تو میری ناقص رائے میں غزل اس کی اجازت نہیں دے سکتی۔۔۔

جیسے روتا رہا ہو کوئی مسلسل اندر
ہنس رہا تھا میں مگر آنسو گلابی نکلے
÷÷ روتا رہا ہو، میں ۔۔۔ رہا کا الف گر گیا ہے ۔۔۔ یہاں یہ ٹھیک نہیں لگ رہا۔۔پھر آنسوؤں کا گلابی ہونا ۔۔ سمجھ میں نہیں آیا۔۔۔

دل کی پھر پوری عمارت گرا دینا لوگو
اس کی تعمیر میں جو اک بھی خرابی نکلے
۔۔۔ یہاں منطق کی غلطی ہے ۔۔ دل کی عمارت میں خرابی ہو تو خرابی کو دور کیا جانا چاہئے ۔۔۔ ویسے بھی دل کی تعمیر تو انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی ہوجاتی ہے۔۔ ہاں شخصیت کی تعمیر پوری زندگی جاری رہتی ہے۔۔

جوں ہی عادت ہو گئی پتھروں پہ چلنے کی
راستے جتنے بھی پھر نکلے سحابی نکلے
۔۔۔۔ پہلا مصرع بے حد کمزور ہے ۔۔ ہو گئی ۔۔۔ ہو کا واؤ گیا ۔۔۔ اور یہاں یہ ٹھیک نہیں۔۔۔
میں ہی برساتا رہا اپنے بدن پر نیزے
مرے اندر سے ہی سو تیر جوابی نکلے
۔۔۔ درست ہے ۔۔۔
شکریہ!

(تقطیع کے لیے دیکھیئے: http://aruuz.com/mypoetry/poetry/34)[/QUOTE]
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ استادی تو خوب دکھائی ہے۔ لیکن قوافی مجھے پسند نہیں آئے۔
سب تصور مرے دنیا کے کتابی نکلے
میں وہابی جنہیں سمجھا تھا شرابی نکلے
÷÷مطلب بھی سمجھ میں نہیں آیا۔

جیسے روتا رہا ہو کوئی مسلسل اندر
ہنس رہا تھا میں مگر آنسو گلابی نکلے
۔۔شاہد کی بات درست ہے۔ گلابی ہونا اصل میں مثبت اظہار لگتا ہے۔ آنسوں کا خوں رنگ ہونا درست ہو سکتا ہے۔

دل کی پھر پوری عمارت گرا دینا لوگو
اس کی تعمیر میں جو اک بھی خرابی نکلے
۔ شاہد کی بات میں بھی دم ہے۔ لیکن اگر اسے مان بھی لیا جائے تو روانی کی وجہ سے چست مصرع نہیں ہے۔ یوں بہتر ہو
دل کی پھر پوری عمارت ہی گرا دولوگو
اس کی تعمیر میں جو کوئی خرابی نکلے

جوں ہی عادت ہو گئی پتھروں پہ چلنے کی
راستے جتنے بھی پھر نکلے سحابی نکلے
۔۔سحابی سے یہاں کیا مراد ہے؟ سحابی راستے کیسے ہوتے ہیں، معلوم نہیں۔

میں ہی برساتا رہا اپنے بدن پر نیزے
مرے اندر سے ہی سو تیر جوابی نکلے
درست
 

کاشف سعید

محفلین
السلام و علیکم،

شاہد اور الف عین صاحب کا بہت مشکور ہوں۔ اعجاز صاحب کی رہنمائی ہمیشہ حاصل رہی ہے۔

پہلا شعر واقعی بے معنی لگتا ہے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں دنیا کے بارے میں جو سوچتا تھا وہ محض کتابی اور حقیقت سے دور باتیں تھیں۔ اصل میں لوگ بہت مختلف تھے مثلا" وہ لوگ جو دین میں بہت سختی رکھنے والے لگتے تھے، وہی سخت گناہ گار نکلے۔ شاید غزل کے مزاج سے یہ شعر لگا نہیں کھاتا مگر مجھے فی الحال اس کی چنداں پروا بھی نہیں۔

دوسرے شعر میں آنسووں میں خون ملنے کی طرف اشارہ تھا۔ کیا یوں بہتر ہو گا: جیسے پانی میں خوں ملتا رہا ہو اندر

تیسرے شعر میں میرا مطلب تھا کہ ایک خرابی سے شخصیت کے کئی دوسرے پہلو اس طرح متاثر ہو جاتے ہیں کہ ہمیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ کیا کیا چیز متاثر ہو چکی ہے۔ لہذا میجر اوورہال ضروری ہو جاتا ہے۔" پوری عمارت" شعری مبالغہ ہے۔ یہ شعر اعجاز صاحب نے سنوار دیا ہے۔ شکریہ۔

سحاب سے مراد بادل یا کہکشاں ہوتے ہیں۔ سحابی راستے سے مراد آسان راستے۔ جیسے مصطفی زیدی ("میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے") نے کہکشاں سے مراد آسان، رواں راستہ لیا ہے۔ کیا پہلا مصرع یوں درست ہو گا: ہم بھی جب سیکھ گئے پتھروں پہ چلنا

مزید رہنمائی کا منتطر،
کاشف۔
 

الف عین

لائبریرین
سحاب کا مطلب محض بادل ہوتا ہے میری معلومات کے مطابق۔
آسان راستہ کے طور پر کچھ اور لفظ استعمال کریں
 

کاشف سعید

محفلین
ابن رضا بھائی، اُسی مضمون میں تو نہیں ہو سکا پر یہ دیکھیں کیسا ہے:

کیسے ملنی تھی مقدر کو بلندی کاشف
تیری قسمت کے ستارے ہی شہابی نکلے
 
Top