کاشف سعید
محفلین
السلام و علیکم،
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
سب تصور مرے دنیا کے کتابی نکلے
میں وہابی جنہیں سمجھا تھا شرابی نکلے
جیسے روتا رہا ہو کوئی مسلسل اندر
ہنس رہا تھا میں مگر آنسو گلابی نکلے
دل کی پھر پوری عمارت گرا دینا لوگو
اس کی تعمیر میں جو اک بھی خرابی نکلے
جوں ہی عادت ہو گئی پتھروں پہ چلنے کی
راستے جتنے بھی پھر نکلے سحابی نکلے
میں ہی برساتا رہا اپنے بدن پر نیزے
مرے اندر سے ہی سو تیر جوابی نکلے
شکریہ!
(تقطیع کے لیے دیکھیئے: http://aruuz.com/mypoetry/poetry/34)
ایک غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔
سب تصور مرے دنیا کے کتابی نکلے
میں وہابی جنہیں سمجھا تھا شرابی نکلے
جیسے روتا رہا ہو کوئی مسلسل اندر
ہنس رہا تھا میں مگر آنسو گلابی نکلے
دل کی پھر پوری عمارت گرا دینا لوگو
اس کی تعمیر میں جو اک بھی خرابی نکلے
جوں ہی عادت ہو گئی پتھروں پہ چلنے کی
راستے جتنے بھی پھر نکلے سحابی نکلے
میں ہی برساتا رہا اپنے بدن پر نیزے
مرے اندر سے ہی سو تیر جوابی نکلے
شکریہ!
(تقطیع کے لیے دیکھیئے: http://aruuz.com/mypoetry/poetry/34)