فرحان محمد خان
محفلین
غزل
سب کے حصے میں غزل گوئی کہاں آتی ہے
وحیِ ربی ہے سرِ نوکِ سناں آتی ہے
دے رہے ہیں یہ بچھڑتے ہوئے احباب خبر
فصلِ گل بیت گئی اب کے خزاں آتی ہے
خوب کہتے ہیں میاں حضرتِ اختر عثمان
خون جلتا ہے تو پھر شعر میں جاں آتی ہے
اتنے خائف ہو جو اسلاف سے پیارے بچو
واقفِ میر ہو حافظ کی زباں آتی ہے؟
دفن ہیں اُس میں مرے خواب نہ جانے کتنے
گھر کے رستے میں کتابوں کی دکاں آتی ہے
اُن کے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
جیسے دریا میں کوئی موجِ رواں آتی ہے
کافرِ عشق تھا میں تُو مرے حالات بھی دیکھ
دل دھڑکتا ہے کہ سینے سے فغاں آتی ہے
میرے غمخوار ہیں یہ شہر کے سارے بچے
انھیں دیکھوں تو مرے جسم میں جاں آتی ہے
اذن ہوتا ہے غزل کا، اسے سمجھو فرحان
دل کے کعبے سے جب آوازِ اذاں آتی ہے
فرحان محمد خان
سب کے حصے میں غزل گوئی کہاں آتی ہے
وحیِ ربی ہے سرِ نوکِ سناں آتی ہے
دے رہے ہیں یہ بچھڑتے ہوئے احباب خبر
فصلِ گل بیت گئی اب کے خزاں آتی ہے
خوب کہتے ہیں میاں حضرتِ اختر عثمان
خون جلتا ہے تو پھر شعر میں جاں آتی ہے
اتنے خائف ہو جو اسلاف سے پیارے بچو
واقفِ میر ہو حافظ کی زباں آتی ہے؟
دفن ہیں اُس میں مرے خواب نہ جانے کتنے
گھر کے رستے میں کتابوں کی دکاں آتی ہے
اُن کے ہونٹوں پہ تبسم کی وہ ہلکی سی لکیر
جیسے دریا میں کوئی موجِ رواں آتی ہے
کافرِ عشق تھا میں تُو مرے حالات بھی دیکھ
دل دھڑکتا ہے کہ سینے سے فغاں آتی ہے
میرے غمخوار ہیں یہ شہر کے سارے بچے
انھیں دیکھوں تو مرے جسم میں جاں آتی ہے
اذن ہوتا ہے غزل کا، اسے سمجھو فرحان
دل کے کعبے سے جب آوازِ اذاں آتی ہے
فرحان محمد خان