مغزل
محفلین
مغزل
ستارۂ سحری نذرِ شام ہوگیا ہے
سیاہ رات کا رونا مدام ہوگیا ہے
خوشی خوشی میں بہت دُور تک نہ ساتھ چلا
وہ رنج زادِ دلِ خوش خرام ہوگیا ہے
تمھارے بعد یہ آنکھیں برسنا بھول گئیں
کہ اب یہ خطّہ بھی بنجر مقام ہوگیا ہے
بس ایک دل ہے تگ و تازِ الفت آرائی
اسیر بھی نہ رہا اور غلام ہوگیا ہے
جو ایک غم تھا کہ نظّارگی سے ہوں محروم
وہ کج کلاہ تو عالی مقام ہوگیا ہے
جو مثلِ آمد و رفتِ نفس تھا تیرا خیال
سکوتِ چشم سے محوِ کلام ہوگیا ہے
تمھارے ہوتے ہوئے رنگ و بُو سے تھی رغبت
تمھارے بعد یہ قصّہ تمام ہوگیا ہے
وہ ایک نام جسے لوگ کہتے ہیں دشنام
مرے غزال وہی میرا نام ہو گیا ہے
کسے سُناؤگے جا کر غزل، ”مرے محمود“ ؟
کہ اب وہ سننا سنانا تمام ہوگیا ہے
م۔م۔مغل
(آخرِشب)