السلام علیکم محترمی
آپ کی غزل غور سے پڑھی اب دو طریقے تو یہ ہیں، جو سکہ رائج الوقت بھی ہیں کہ چند شعروں کا انتخاب کر کے داد دے کر آگے بڑھ جایا جائے یا پھر اس کی زحمت بھی گوارا نہ کی جائے اور ریٹنگ کا انگوٹھا دکھا کر رستہ ناپا جائے -دونوں طریقوں میں بچت اور راہ نجات ہے کہ اپنی کم علمی کی قلعی بھی نہیں کھلتی اور شاعر کی دل آزاری اور ڈانٹ سے بھی حفاظت رہتی ہے -یہ دونوں طریقے میرے بھی آزمودہ نہایت مجرّب اور اکسیر نسخے ہیں -گویا کہ کم خرچ بالا نشین -
مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ روش: ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ : کے سوا کچھ نہیں -ہرچند اس حیلے میں عافیت ہے کہ ہم شاعر کے اچھے اشعار پہ داد اور ریٹنگ دیتے ہیں ہمیں برے اور کمزور شعروں سے کوئی غرض نہیں مگر اس عافیت کی روش میں اگر استقلال سے اپنائی جائے ،نہ قاری کی ترقی ہے نہ شاعر کی اور نہ اردوزبان کی -
:سب اچھا ہے : کے مقابلے میں ایک اور رویّہ بھی اردو ادب میں رائج رہا ہے اور وہ یہ کہ :سب برا ہے : بقول شاعر :
اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی تو ظالم نے کیا کی
یعنی ایک رویّہ اگر :احمقوں کی جنّت: ہے تو دوسرا :بقراطوں کی دوزخ :-واللہ یہ دوسرا رویہ تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے -ویسے بھی اردو کے شعرا میں خودکشیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے ،کوئی نہیں چاہے گا کہ قیامت کے دن اس کے نامۂ اعمال میں یہ گناہ بھی لکھا جائے کہ جناب کا ناقدانہ تبصرہ پڑھ کے فلاں شاعر نے لیاری ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی -
یوں بھی بر صغیر پاک و ہند میں اردو زبان پہ جو زبوں حالی ہے ، گالم گفتاری اور ایہام عام ہے ،دفتروں میں بھی کوئی فقرہ بغیر ماں بہن کی گالی کے مشکل سے ادا ہو پاتاہے اور فرمایا جاتا ہے کہ اس سے بات میں وزن پیدا ہوتا ہے،ایسے میں اگر کوئی اردو ادب کی طرف مائل ہو رہا ہے خواہ شاعری کے ہی توسط سے ،میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعمیری کاوشوں پہ اپنے مقام سے نزول کر کے بھی حوصلہ افزائی کر دی جائے تو گناہ نہیں بلکہ مستحسن ہے -
آمدم بر سر مطلب ،جہاں تک میں آپ کا مزاج آشنا ہوں، آپ بے لاگ تبصرہ پسند فرماتے ہیں اور بے لاگ لکھنے کی تحریک مجھ میں آپ کی پیدا کردہ ہے نیز :سب اچھا ہے: اور :سب برا ہے: کے درمیان کی معتدل راہ بھی یہی ہے کہ بطور طالب علم ہی سہی بے لاگ لکھا جائے کہ بقول شاعر :
یہ کیا انداز ہے اے نکتہ چینو!
کوئی تنقید تو بے لاگ نکلے
سجدہ ء کفر سرِ کوئے انا تھا ، کہ نہ تھا؟
تجھ کو سرور بتا کچھ خوف خدا تھا ،کہ نہ تھا؟
آپ ہی کا مقولہ ایک جگہ نظر سے گزرا کہ شاعری بھاری بھرکم تراکیب کا نام نہیں بلکہ یہ سیدھی سادی دلی جذبات کی ترجمانی ہے -اس مقولے کی روشنی میں دیکھا جائے تو مصرع اولیٰ خاصا بوجھل ہوگیا ہے یہاں تک کہ مراد اوجھل سی ہوگئی ہے، رہنمائی فرمائیے گا -
میری ناقص رائے میں شعر کی نثر یوں ہو گی :
کفر کا سجدہ انا کی گلی کے آگے (آغاز میں ) تھا کہ نہ تھا، سرور ! تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا
یوں :کفر کا سجدہ تھا کہ نہ تھا : عبارت اپنے مفہوم کی ادائیگی سے عاجز محسوس ہوتی ہے ہاں عبارت یوں ہوتی تو کوئی دقت سمجھنے میں نہ تھی :انا کے سامنے سجدہ کفر تھا کہ نہ تھا ؟: پھر ترکیب : کوئے انا : میں گلی کی تخصیص ہی کیوں ؟
آپ نے بندش کے متعلق اظہارخیال کی بھی تلقین کی ہے تو یہی کہوں گا کہ دوسرے مصرع میں :بتا: کا الف گرانے سے بندش ذرا سست ہو رہی ہے -
الغرض شعر کی اس صورت میں کیا قباحت تھی :
کفر سجدہ سرِ دربارِ انا تھا کہ نہ تھا
بول سرور تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا
یوں پہلا مصرع بھی واضح ہو جاتا ،:دربار: اور :سرور : میں ربط قائم ہو جاتا، پھر بندش کے لحاظ سے آخری حروف علّت میں سے :ے : گرانا :الف: گرانے کے مقابلے میں بہتر ہے - ظاہر سی بات ہے آپ کے ذوق و مشقِ شعر و سخن مجھ سے کہیں زیادہ ہیں سو متبادل صورت پیش ہی اس لیے کی گئی ہے کہ اس صورت کی قباحت پتا چلے اور آپ کے شعر کے رموز سمجھے جا سکیں -
ہم غریبان وفا تھے، سو وفادار رہے
:اس کو وہ جانے ، اسے پاس وفا تھا ، کہ نہ تھا:
دوسرے مصرع کی یہ صورت :اس کی وہ جانے...........: اس قدر مقبول ہے کہ ذوق کو کوئی اور صورت کھٹکنے لگتی ہے -آپ کیا فرماتے ہیں ؟
گو شعر اپنے مطلب میں صاف ہے لیکن میری خواہش ہے کہ آپ :غریبان وفا : کی نادر ترکیب پر کچھ روشنی ڈالیں -
:غریب : لفظ اتنے وسیع معانی رکھتا ہے کہ اس سے بننے والی تراکیب مجھ ایسے عام قاری کو الجھا دیتی ہیں -جیسے فیض کا شعر ہے
ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام
اور اقبال کہتے ہیں :
عیشِ منزل ہے غریبانِ محبّت پہ حرام
سب مسافر ہیں، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم
اور پھر شعرا نے جابجا :شام غریباں : کی ترکیب کا بھی استعمال کیا ہے -
کیا ان سب کے "غریبان " اور آپ کے "غریبان " میں کوئی فرق ہے ؟
یف ، ڈھونڈا کیا تو راہ طلب میں اُس کو
یہ بتا دل مرے، کچھ اپنا پتا تھا کہ نہ تھا؟
واہ -بہت خوب -
پہلے مصرع میں :ڈھونڈا کیا تو : کے مقام پر بندش کچھ سست محسوس ہوتی ہے -آپ کیا فرماتے ہیں ؟
ایک سایہ تھا، گذر گاہ نظرتھی، میں تھا
کیا خبر مجھ کو کہ وہ کون تھا،کیا تھا ، کہ نہ تھا؟
الفاظ کا چناؤ ان کی نشست و برخواست سب بلا شبہ لاجواب ہیں -پھر بندش بھی چست ہے -
مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون تھا، کیا تھا یعنی ماہیت و نوعیت وغیرہ کے سوال اٹھانے کے فورا بعد ایک دم عدم وجود کا سوال کیوں ؟ ذوق تقاضہ کرتا ہے عدم وجود سے پہلے وجود کے متعلق سوال کا یعنی :وہ کون تھا ،کیا تھا ،تھا بھی کہ نہ تھا :
زحمت زیست ، غم آرزو، فکر دوراں
ہر گھڑی ایک نہ اک کھٹکا لگا تھا، کہ نہ تھا؟
میری ناقص رائے یہ ہے کہ پہلے مصرع میں بندش بہت سست ہو گئی ہے،:آرزو : کے اس طرح دبانے اور فورا ہی :فکرے : کو کھینچ کر پڑھنے کے سبب ،
آپ کیا فرماتے ہیں ؟
ایک موہوم سی امید تھی، میں تھا، مری تنہائی تھی
ٹمٹماتا ہوا اک دل میں دیا تھا، کہ نہ تھا؟
واہ - چہ خوب -
:موہوم: لفظ نے ردیف کو خوب نبھایا-
شق تسبیح ازل، عشق ہی تسبیح ابد
عشق ہی حاصل صد صبح و مسا تھا، کہ نہ تھا؟
محسوس ہوتا ہے کہ ردیف یہاں شاعر کو پریشان کر رہی ہے ،وہ ایک حتمی بات کہنا چاہ رہا ہے مگر :تھا کہ نہ تھا ؟: کا ٹنٹا پیچھا نہیں چھوڑ رہا -
ہر طرف لالہ و گل، بوئے بہاراں ہر سو
کون بتلائے کہ وہ جلوہ نما تھا ، کہ نہ تھا؟
قاری کا سوال یہ ہے کہ شاعر کا سوال کسی اور سے کیوں ہے ایسی واضح دلائل کے باوجود -:کون بتلائے :؟
ہاں ، وہی چھیڑگیا جو یہ رباب ہستی
جان جاں، جان غزل، جان وفا تھا ، کہ نہ تھاَ؟
یک بیک رک گئی سرور جویہ نبض ہستی
سچ بتا، تو نے اُسے یاد کیا تھا، کہ نہ تھا؟
یہ دونوں اشعار لاجواب ہیں -ماشاء الله
بے ساختگی کمال کی ، الفاظ کی نشت و برخواست بہترین ،بندش چست ،دونوں اشعار پر کیف اور شاعر کی کیفیت قاری میں منتقل کرنے والے -
الله جل شانہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم و دائم رکھے صحت و عافیت کے ساتھ -آمین