غزل: سجدہء کفر سر کوئے انا تھا کہ نہ تھا

ہاران محفل: ایک غزل لے کر حاضر ہو رہا ہوں۔ والد محترم میرے استاد بھی تھے اور وہ الفاظ کی بندش اور نشست وبرخاست کا خیال رکھنے پر بہت زور دیتے تھے۔ گذارش ہے کہ غزل دیکھتے وقت آپ اس نکتہ پر خاص طور سے توجہ دیں۔تمہید کے حوالے سے یہ اور عرض کردوں کہ مرزا غالب کا درج ذیل شعر جس میں صرف ایک لفظ فارسی کا ہے مرحوم کو اپنی بندش کی بناپر بہت پسند تھا۔ الفاظ کی سادگی اور مضمون کی بلندی دیکھئے اور غور کیجئے کہ شعر میں ایک لفظ ادھر سے اُدھر کرنا ممکن نہیں ہے۔اور یہی کمال فن حاصل کرنے کی کوشش ہمارا مقصد بھی ہونا چاہئے۔ شکریہ۔
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویامجھ کوہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا؟
-----------------
غزل
سجدہ ء کفر سرِ کوئے انا تھا ، کہ نہ تھا؟
تجھ کو سرور بتا کچھ خوف خدا تھا ،کہ نہ تھا؟

ہم غریبان وفا تھے، سو وفادار رہے
:اس کو وہ جانے ، اسے پاس وفا تھا ، کہ نہ تھا:

حیف ، ڈھونڈا کیا تو راہ طلب میں اُس کو
یہ بتا دل مرے، کچھ اپنا پتا تھا کہ نہ تھا؟

ایک سایہ تھا، گذر گاہ نظرتھی، میں تھا
کیا خبر مجھ کو کہ وہ کون تھا،کیا تھا ، کہ نہ تھا؟

زحمت زیست ، غم آرزو، فکر دوراں
ہر گھڑی ایک نہ اک کھٹکا لگا تھا، کہ نہ تھا؟

ایک موہوم سی امید تھی، میں تھا، مری تنہائی تھی
ٹمٹماتا ہوا اک دل میں دیا تھا، کہ نہ تھا؟

عشق تسبیح ازل، عشق ہی تسبیح ابد
عشق ہی حاصل صد صبح و مسا تھا، کہ نہ تھا؟

ہر طرف لالہ و گل، بوئے بہاراں ہر سو
کون بتلائے کہ وہ جلوہ نما تھا ، کہ نہ تھا؟

ہاں ، وہی چھیڑگیا جو یہ رباب ہستی
جان جاں، جان غزل، جان وفا تھا ، کہ نہ تھاَ؟

یک بیک رک گئی سرور جویہ نبض ہستی
سچ بتا، تو نے اُسے یاد کیا تھا، کہ نہ تھا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرور عالم راز
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ، واہ! بہت خوب ! اچھے اشعار ہیں ، سرور بھائی!
اچھی غزل ہے ، لطف آیا پڑھ کر ۔ خوب زمین ہے اس کی !

ہم غریبانِ وفا تھے، سو وفادار رہے
اُس کی وہ جانے ، اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا


بہت خوب ! اچھا کہا ہے ۔ غزل کاروایتی مضمون اور شعریت و تغزل اس پر مستزاد! ( اس کو وہ جانے غالباً ٹائپو ہے یا پھر قصداً اس کو وہ جانے ہی کہا ہے؟! )

حیف ، ڈھونڈا کیا تو راہِ طلب میں اُس کو
یہ بتا دل مرے، کچھ اپنا پتا تھا کہ نہ تھا؟


واہ! بہت خوب! پسند آیا یہ شعر۔

ایک سایہ تھا، گذر گاہ ِنظرتھی، میں تھا
کیا خبر مجھ کو کہ وہ کون تھا،کیا تھا ، کہ نہ تھا؟


اچھا مضمون ہے۔ اچھا شعر ہے لیکن میری ناقص رائے میں دوسرے مصرع میں عیبِ تنافر کھَل رہا ہے اور روانی کو مجروح کررہا ہے۔" ک ک وہ کو" نہ صرف صوتی طور پرثقیل ہے بلکہ ذوق پر گراں بھی گزرہا ہے ۔ میری ناقص رائے میں " نہیں معلوم کہ وہ کون تھا ، کیا تھا ، کہ نہ تھا" کہنے سے مضمون ادا تو ہوجاتا ہے لیکن آپ نے موجودہ بندش کو اس پیرائے پر ترجیح دی تو یقیناً اس کی کوئی وجہ رہی ہوگی ۔

محترمی سرور صاحب! حسبِ حکم میں نے اس خوبصورت غزل پر اپنی ناقص مگر بے لاگ رائے پیش کردی ہے ۔ مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ مثبت اور تعمیری گفتگو ہوسکے اور اس کے توسط سے کچھ سیکھنے سکھانے کا سامان مہیا ہوسکے۔ اورمحفل میں آپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ :)
 
واہ ، واہ! بہت خوب ! اچھے اشعار ہیں ، سرور بھائی!
اچھی غزل ہے ، لطف آیا پڑھ کر ۔ خوب زمین ہے اس کی !

ہم غریبانِ وفا تھے، سو وفادار رہے
اُس کی وہ جانے ، اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا


بہت خوب ! اچھا کہا ہے ۔ غزل کاروایتی مضمون اور شعریت و تغزل اس پر مستزاد! ( اس کو وہ جانے غالباً ٹائپو ہے یا پھر قصداً اس کو وہ جانے ہی کہا ہے؟! )

حیف ، ڈھونڈا کیا تو راہِ طلب میں اُس کو
یہ بتا دل مرے، کچھ اپنا پتا تھا کہ نہ تھا؟


واہ! بہت خوب! پسند آیا یہ شعر۔

ایک سایہ تھا، گذر گاہ ِنظرتھی، میں تھا
کیا خبر مجھ کو کہ وہ کون تھا،کیا تھا ، کہ نہ تھا؟


اچھا مضمون ہے۔ اچھا شعر ہے لیکن میری ناقص رائے میں دوسرے مصرع میں عیبِ تنافر کھَل رہا ہے اور روانی کو مجروح کررہا ہے۔" ک ک وہ کو" نہ صرف صوتی طور پرثقیل ہے بلکہ ذوق پر گراں بھی گزرہا ہے ۔ میری ناقص رائے میں " نہیں معلوم کہ وہ کون تھا ، کیا تھا ، کہ نہ تھا" کہنے سے مضمون ادا تو ہوجاتا ہے لیکن آپ نے موجودہ بندش کو اس پیرائے پر ترجیح دی تو یقیناً اس کی کوئی وجہ رہی ہوگی ۔

محترمی سرور صاحب! حسبِ حکم میں نے اس خوبصورت غزل پر اپنی ناقص مگر بے لاگ رائے پیش کردی ہے ۔ مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں کہ مثبت اور تعمیری گفتگو ہوسکے اور اس کے توسط سے کچھ سیکھنے سکھانے کا سامان مہیا ہوسکے۔ اورمحفل میں آپ کی موجودگی کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ :)
عزیز مکرم ظہیر صاحب: غزل پر اظہار خیال کا شکریہ قبول کیجئے۔ بشرط فرصت و صحت کسی اور دن آپ سے گفتگو ہو گی۔ انشااللہ۔ اس وقت تھوڑے لکھے کو بہت جانئے ۔ جزاک اللہ خیرا۔
سرور راز
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم محترمی
آپ کی غزل غور سے پڑھی اب دو طریقے تو یہ ہیں، جو سکہ رائج الوقت بھی ہیں کہ چند شعروں کا انتخاب کر کے داد دے کر آگے بڑھ جایا جائے یا پھر اس کی زحمت بھی گوارا نہ کی جائے اور ریٹنگ کا انگوٹھا دکھا کر رستہ ناپا جائے -دونوں طریقوں میں بچت اور راہ نجات ہے کہ اپنی کم علمی کی قلعی بھی نہیں کھلتی اور شاعر کی دل آزاری اور ڈانٹ سے بھی حفاظت رہتی ہے -یہ دونوں طریقے میرے بھی آزمودہ نہایت مجرّب اور اکسیر نسخے ہیں -گویا کہ کم خرچ بالا نشین -
مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ روش: ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ : کے سوا کچھ نہیں -ہرچند اس حیلے میں عافیت ہے کہ ہم شاعر کے اچھے اشعار پہ داد اور ریٹنگ دیتے ہیں ہمیں برے اور کمزور شعروں سے کوئی غرض نہیں مگر اس عافیت کی روش میں اگر استقلال سے اپنائی جائے ،نہ قاری کی ترقی ہے نہ شاعر کی اور نہ اردوزبان کی -

:سب اچھا ہے : کے مقابلے میں ایک اور رویّہ بھی اردو ادب میں رائج رہا ہے اور وہ یہ کہ :سب برا ہے : بقول شاعر :

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی تو ظالم نے کیا کی

یعنی ایک رویّہ اگر :احمقوں کی جنّت: ہے تو دوسرا :بقراطوں کی دوزخ :-واللہ یہ دوسرا رویہ تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے -ویسے بھی اردو کے شعرا میں خودکشیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے ،کوئی نہیں چاہے گا کہ قیامت کے دن اس کے نامۂ اعمال میں یہ گناہ بھی لکھا جائے کہ جناب کا ناقدانہ تبصرہ پڑھ کے فلاں شاعر نے لیاری ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی -

یوں بھی بر صغیر پاک و ہند میں اردو زبان پہ جو زبوں حالی ہے ، گالم گفتاری اور ایہام عام ہے ،دفتروں میں بھی کوئی فقرہ بغیر ماں بہن کی گالی کے مشکل سے ادا ہو پاتاہے اور فرمایا جاتا ہے کہ اس سے بات میں وزن پیدا ہوتا ہے،ایسے میں اگر کوئی اردو ادب کی طرف مائل ہو رہا ہے خواہ شاعری کے ہی توسط سے ،میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعمیری کاوشوں پہ اپنے مقام سے نزول کر کے بھی حوصلہ افزائی کر دی جائے تو گناہ نہیں بلکہ مستحسن ہے -

آمدم بر سر مطلب ،جہاں تک میں آپ کا مزاج آشنا ہوں، آپ بے لاگ تبصرہ پسند فرماتے ہیں اور بے لاگ لکھنے کی تحریک مجھ میں آپ کی پیدا کردہ ہے نیز :سب اچھا ہے: اور :سب برا ہے: کے درمیان کی معتدل راہ بھی یہی ہے کہ بطور طالب علم ہی سہی بے لاگ لکھا جائے کہ بقول شاعر :

یہ کیا انداز ہے اے نکتہ چینو!
کوئی تنقید تو بے لاگ نکلے

سجدہ ء کفر سرِ کوئے انا تھا ، کہ نہ تھا؟
تجھ کو سرور بتا کچھ خوف خدا تھا ،کہ نہ تھا؟
آپ ہی کا مقولہ ایک جگہ نظر سے گزرا کہ شاعری بھاری بھرکم تراکیب کا نام نہیں بلکہ یہ سیدھی سادی دلی جذبات کی ترجمانی ہے -اس مقولے کی روشنی میں دیکھا جائے تو مصرع اولیٰ خاصا بوجھل ہوگیا ہے یہاں تک کہ مراد اوجھل سی ہوگئی ہے، رہنمائی فرمائیے گا -
میری ناقص رائے میں شعر کی نثر یوں ہو گی :

کفر کا سجدہ انا کی گلی کے آگے (آغاز میں ) تھا کہ نہ تھا، سرور ! تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا

یوں :کفر کا سجدہ تھا کہ نہ تھا : عبارت اپنے مفہوم کی ادائیگی سے عاجز محسوس ہوتی ہے ہاں عبارت یوں ہوتی تو کوئی دقت سمجھنے میں نہ تھی :انا کے سامنے سجدہ کفر تھا کہ نہ تھا ؟: پھر ترکیب : کوئے انا : میں گلی کی تخصیص ہی کیوں ؟

آپ نے بندش کے متعلق اظہارخیال کی بھی تلقین کی ہے تو یہی کہوں گا کہ دوسرے مصرع میں :بتا: کا الف گرانے سے بندش ذرا سست ہو رہی ہے -

الغرض شعر کی اس صورت میں کیا قباحت تھی :

کفر سجدہ سرِ دربارِ انا تھا کہ نہ تھا
بول سرور تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا

یوں پہلا مصرع بھی واضح ہو جاتا ،:دربار: اور :سرور : میں ربط قائم ہو جاتا، پھر بندش کے لحاظ سے آخری حروف علّت میں سے :ے : گرانا :الف: گرانے کے مقابلے میں بہتر ہے - ظاہر سی بات ہے آپ کے ذوق و مشقِ شعر و سخن مجھ سے کہیں زیادہ ہیں سو متبادل صورت پیش ہی اس لیے کی گئی ہے کہ اس صورت کی قباحت پتا چلے اور آپ کے شعر کے رموز سمجھے جا سکیں -

ہم غریبان وفا تھے، سو وفادار رہے
:اس کو وہ جانے ، اسے پاس وفا تھا ، کہ نہ تھا:

دوسرے مصرع کی یہ صورت :اس کی وہ جانے...........: اس قدر مقبول ہے کہ ذوق کو کوئی اور صورت کھٹکنے لگتی ہے -آپ کیا فرماتے ہیں ؟

گو شعر اپنے مطلب میں صاف ہے لیکن میری خواہش ہے کہ آپ :غریبان وفا : کی نادر ترکیب پر کچھ روشنی ڈالیں -
:غریب : لفظ اتنے وسیع معانی رکھتا ہے کہ اس سے بننے والی تراکیب مجھ ایسے عام قاری کو الجھا دیتی ہیں -جیسے فیض کا شعر ہے

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

اور اقبال کہتے ہیں :

عیشِ منزل ہے غریبانِ محبّت پہ حرام
سب مسافر ہیں، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم

اور پھر شعرا نے جابجا :شام غریباں : کی ترکیب کا بھی استعمال کیا ہے -

کیا ان سب کے "غریبان " اور آپ کے "غریبان " میں کوئی فرق ہے ؟
یف ، ڈھونڈا کیا تو راہ طلب میں اُس کو
یہ بتا دل مرے، کچھ اپنا پتا تھا کہ نہ تھا؟
واہ -بہت خوب -
پہلے مصرع میں :ڈھونڈا کیا تو : کے مقام پر بندش کچھ سست محسوس ہوتی ہے -آپ کیا فرماتے ہیں ؟

ایک سایہ تھا، گذر گاہ نظرتھی، میں تھا
کیا خبر مجھ کو کہ وہ کون تھا،کیا تھا ، کہ نہ تھا؟
الفاظ کا چناؤ ان کی نشست و برخواست سب بلا شبہ لاجواب ہیں -پھر بندش بھی چست ہے -

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون تھا، کیا تھا یعنی ماہیت و نوعیت وغیرہ کے سوال اٹھانے کے فورا بعد ایک دم عدم وجود کا سوال کیوں ؟ ذوق تقاضہ کرتا ہے عدم وجود سے پہلے وجود کے متعلق سوال کا یعنی :وہ کون تھا ،کیا تھا ،تھا بھی کہ نہ تھا :
زحمت زیست ، غم آرزو، فکر دوراں
ہر گھڑی ایک نہ اک کھٹکا لگا تھا، کہ نہ تھا؟
میری ناقص رائے یہ ہے کہ پہلے مصرع میں بندش بہت سست ہو گئی ہے،:آرزو : کے اس طرح دبانے اور فورا ہی :فکرے : کو کھینچ کر پڑھنے کے سبب ،
آپ کیا فرماتے ہیں ؟

ایک موہوم سی امید تھی، میں تھا، مری تنہائی تھی
ٹمٹماتا ہوا اک دل میں دیا تھا، کہ نہ تھا؟

واہ - چہ خوب -
:موہوم: لفظ نے ردیف کو خوب نبھایا-

شق تسبیح ازل، عشق ہی تسبیح ابد
عشق ہی حاصل صد صبح و مسا تھا، کہ نہ تھا؟

محسوس ہوتا ہے کہ ردیف یہاں شاعر کو پریشان کر رہی ہے ،وہ ایک حتمی بات کہنا چاہ رہا ہے مگر :تھا کہ نہ تھا ؟: کا ٹنٹا پیچھا نہیں چھوڑ رہا -

ہر طرف لالہ و گل، بوئے بہاراں ہر سو
کون بتلائے کہ وہ جلوہ نما تھا ، کہ نہ تھا؟
قاری کا سوال یہ ہے کہ شاعر کا سوال کسی اور سے کیوں ہے ایسی واضح دلائل کے باوجود -:کون بتلائے :؟
ہاں ، وہی چھیڑگیا جو یہ رباب ہستی
جان جاں، جان غزل، جان وفا تھا ، کہ نہ تھاَ؟

یک بیک رک گئی سرور جویہ نبض ہستی
سچ بتا، تو نے اُسے یاد کیا تھا، کہ نہ تھا؟
یہ دونوں اشعار لاجواب ہیں -ماشاء الله
بے ساختگی کمال کی ، الفاظ کی نشت و برخواست بہترین ،بندش چست ،دونوں اشعار پر کیف اور شاعر کی کیفیت قاری میں منتقل کرنے والے -

الله جل شانہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم و دائم رکھے صحت و عافیت کے ساتھ -آمین
 
آخری تدوین:
السلام علیکم محترمی
آپ کی غزل غور سے پڑھی اب دو طریقے تو یہ ہیں، جو سکہ رائج الوقت بھی ہیں کہ چند شعروں کا انتخاب کر کے داد دے کر آگے بڑھ جایا جائے یا پھر اس کی زحمت بھی گوارا نہ کی جائے اور ریٹنگ کا انگوٹھا دکھا کر رستہ ناپا جائے -دونوں طریقوں میں بچت اور راہ نجات ہے کہ اپنی کم علمی کی قلعی بھی نہیں کھلتی اور شاعر کی دل آزاری اور ڈانٹ سے بھی حفاظت رہتی ہے -یہ دونوں طریقے میرے بھی آزمودہ نہایت مجرّب اور اکسیر نسخے ہیں -گویا کہ کم خرچ بالا نشین -
مگر میں یہ بھی جانتا ہوں کہ یہ روش: ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوبُ : کے سوا کچھ نہیں -ہرچند اس حیلے میں عافیت ہے کہ ہم شاعر کے اچھے اشعار پہ داد اور ریٹنگ دیتے ہیں ہمیں برے اور کمزور شعروں سے کوئی غرض نہیں مگر اس عافیت کی روش میں اگر استقلال سے اپنائی جائے ،نہ قاری کی ترقی ہے نہ شاعر کی اور نہ اردوزبان کی -

:سب اچھا ہے : کے مقابلے میں ایک اور رویّہ بھی اردو ادب میں رائج رہا ہے اور وہ یہ کہ :سب برا ہے : بقول شاعر :

اگر غفلت سے باز آیا جفا کی
تلافی کی بھی تو ظالم نے کیا کی

یعنی ایک رویّہ اگر :احمقوں کی جنّت: ہے تو دوسرا :بقراطوں کی دوزخ :-واللہ یہ دوسرا رویہ تو پہلے کے مقابلے میں زیادہ خطرناک ہے -ویسے بھی اردو کے شعرا میں خودکشیوں کا رجحان بہت زیادہ ہے ،کوئی نہیں چاہے گا کہ قیامت کے دن اس کے نامۂ اعمال میں یہ گناہ بھی لکھا جائے کہ جناب کا ناقدانہ تبصرہ پڑھ کے فلاں شاعر نے لیاری ندی میں چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی -

یوں بھی بر صغیر پاک و ہند میں اردو زبان پہ جو زبوں حالی ہے ، گالم گفتاری اور ایہام عام ہے ،دفتروں میں بھی کوئی فقرہ بغیر ماں بہن کی گالی کے مشکل سے ادا ہو پاتاہے اور فرمایا جاتا ہے کہ اس سے بات میں وزن پیدا ہوتا ہے،ایسے میں اگر کوئی اردو ادب کی طرف مائل ہو رہا ہے خواہ شاعری کے ہی توسط سے ،میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعمیری کاوشوں پہ اپنے مقام سے نزول کر کے بھی حوصلہ افزائی کر دی جائے تو گناہ نہیں بلکہ مستحسن ہے -

آمدم بر سر مطلب ،جہاں تک میں آپ کا مزاج آشنا ہوں، آپ بے لاگ تبصرہ پسند فرماتے ہیں اور بے لاگ لکھنے کی تحریک مجھ میں آپ کی پیدا کردہ ہے نیز :سب اچھا ہے: اور :سب برا ہے: کے درمیان کی معتدل راہ بھی یہی ہے کہ بطور طالب علم ہی سہی بے لاگ لکھا جائے کہ بقول شاعر :

یہ کیا انداز ہے اے نکتہ چینو!
کوئی تنقید تو بے لاگ نکلے


آپ ہی کا مقولہ ایک جگہ نظر سے گزرا کہ شاعری بھاری بھرکم تراکیب کا نام نہیں بلکہ یہ سیدھی سادی دلی جذبات کی ترجمانی ہے -اس مقولے کی روشنی میں دیکھا جائے تو مصرع اولیٰ خاصا بوجھل ہوگیا ہے یہاں تک کہ مراد اوجھل سی ہوگئی ہے، رہنمائی فرمائیے گا -
میری ناقص رائے میں شعر کی نثر یوں ہو گی :

کفر کا سجدہ انا کی گلی کے آگے (آغاز میں ) تھا کہ نہ تھا، سرور ! تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا

یوں :کفر کا سجدہ تھا کہ نہ تھا : عبارت اپنے مفہوم کی ادائیگی سے عاجز محسوس ہوتی ہے ہاں عبارت یوں ہوتی تو کوئی دقت سمجھنے میں نہ تھی :انا کے سامنے سجدہ کفر تھا کہ نہ تھا ؟: پھر ترکیب : کوئے انا : میں گلی کی تخصیص ہی کیوں ؟

آپ نے بندش کے متعلق اظہارخیال کی بھی تلقین کی ہے تو یہی کہوں گا کہ دوسرے مصرع میں :بتا: کا الف گرانے سے بندش ذرا سست ہو رہی ہے -

الغرض شعر کی اس صورت میں کیا قباحت تھی :

کفر سجدہ سرِ دربارِ انا تھا کہ نہ تھا
بول سرور تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا

یوں پہلا مصرع بھی واضح ہو جاتا ،:دربار: اور :سرور : میں ربط قائم ہو جاتا، پھر بندش کے لحاظ سے آخری حروف علّت میں سے :ے : گرانا :الف: گرانے کے مقابلے میں بہتر ہے - ظاہر سی بات ہے آپ کے ذوق و مشقِ شعر و سخن مجھ سے کہیں زیادہ ہیں سو متبادل صورت پیش ہی اس لیے کی گئی ہے کہ اس صورت کی قباحت پتا چلے اور آپ کے شعر کے رموز سمجھے جا سکیں -



دوسرے مصرع کی یہ صورت :اس کی وہ جانے...........: اس قدر مقبول ہے کہ ذوق کو کوئی اور صورت کھٹکنے لگتی ہے -آپ کیا فرماتے ہیں ؟

گو شعر اپنے مطلب میں صاف ہے لیکن میری خواہش ہے کہ آپ :غریبان وفا : کی نادر ترکیب پر کچھ روشنی ڈالیں -
:غریب : لفظ اتنے وسیع معانی رکھتا ہے کہ اس سے بننے والی تراکیب مجھ ایسے عام قاری کو الجھا دیتی ہیں -جیسے فیض کا شعر ہے

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبان چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

اور اقبال کہتے ہیں :

عیشِ منزل ہے غریبانِ محبّت پہ حرام
سب مسافر ہیں، بظاہر نظر آتے ہیں مقیم

اور پھر شعرا نے جابجا :شام غریباں : کی ترکیب کا بھی استعمال کیا ہے -

کیا ان سب کے "غریبان " اور آپ کے "غریبان " میں کوئی فرق ہے ؟

واہ -بہت خوب -
پہلے مصرع میں :ڈھونڈا کیا تو : کے مقام پر بندش کچھ سست محسوس ہوتی ہے -آپ کیا فرماتے ہیں ؟


الفاظ کا چناؤ ان کی نشست و برخواست سب بلا شبہ لاجواب ہیں -پھر بندش بھی چست ہے -

مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون تھا، کیا تھا یعنی ماہیت و نوعیت وغیرہ کے سوال اٹھانے کے فورا بعد ایک دم عدم وجود کا سوال کیوں ؟ ذوق تقاضہ کرتا ہے عدم وجود سے پہلے وجود کے متعلق سوال کا یعنی :وہ کون تھا ،کیا تھا ،تھا بھی کہ نہ تھا :

میری ناقص رائے یہ ہے کہ پہلے مصرع میں بندش بہت سست ہو گئی ہے،:آرزو : کے اس طرح دبانے اور فورا ہی :فکرے : کو کھینچ کر پڑھنے کے سبب ،
آپ کیا فرماتے ہیں ؟



واہ - چہ خوب -
:موہوم: لفظ نے ردیف کو خوب نبھایا-



محسوس ہوتا ہے کہ ردیف یہاں شاعر کو پریشان کر رہی ہے ،وہ ایک حتمی بات کہنا چاہ رہا ہے مگر :تھا کہ نہ تھا ؟: کا ٹنٹا پیچھا نہیں چھوڑ رہا -


قاری کا سوال یہ ہے کہ شاعر کا سوال کسی اور سے کیوں ہے ایسی واضح دلائل کے باوجود -:کون بتلائے :؟

یہ دونوں اشعار لاجواب ہیں -ماشاء الله
بے ساختگی کمال کی ، الفاظ کی نشت و برخواست بہترین ،بندش چست ،دونوں اشعار پر کیف اور شاعر کی کیفیت قاری میں منتقل کرنے والے -

الله جل شانہ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم و دائم رکھے صحت و عافیت کے ساتھ -آمین
عزیز مکرم یاسر صاحب: وعلیکم السلام
آپ کے تبصرہ کی تقریب سے جہاں محظوظ ہوا وہیں چند لمحات تاسف سے بھی دو چار رہا۔ آپ نے داد و بیداد کے جن دومروجہ طریقوں کا ذکرکیا ہے میں انھیں :تحصیل لا حاصل: کی مشترکہ ٹوکری کی خدمت تزئین کی نذر کرنے میں دیر نہیں کرتا کیونکہ وقت ضائع کرنے کے بہتر طریقوں سے بخوبی واقف ہوں۔ آپ کا تبصرہ مجھ پر کوئی یک لفظی ٹھپہ نہیں لگاتا او ر نہ ہی کوئی فتوی صادر کرتا ہے بلکہ آپ کی سنجیدگیء فکر پر دال ہے۔ ادب اور شعر میں میرا موقف یہ ہے کہ غلطی ہر ایک سے ہوتی ہے اور عیب بھی ہرا یک کےکلام میں ہو سکتا ہے۔ یہ انسانی فطر ت کا تقاضہ ہے ،گناہ نہیں ہے ۔ خدائے سخن میر تقی میر کے کلام پر :پستش بغایت پست و بلندش بغایت بلنداست: لکھا گیا تو انھوں نے :دفتری زبان: میں احتجاج نہیں کیا اور غالب نے : ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا:لکھا تو قیامت بپا نہیں ہوئی۔ تنقید شائستہ اور بے لاگ ہونی چاہئے کیونکہ اسی سے شاعر اور ادب دونوں کا مفاد وابستہ ہے۔زندگی کے کسی شعبہ میں بھی بغیر صحتمندتنقید کےترقی ناممکن ہے۔ میں آپ کے طویل تبصرہ کے ہر نکتہ کا جواب تونہیں دے سکوں گا لیکن کوشش کروں گا کہ اپنا مافی الضمیر واضح کردوں تاکہ :سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے۔: وما توفیقی الا باللہ۔
-----------
سجدہء کفر سر کوئے انا تھا کہ نہ تھا؟
تجھ کو سرور بتا کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا؟
اس غز؛ل کی محرک اس کی زمین، خصوصا اس کی ردیف ہے ۔ آپ کو اس میں جو عیوب نظر آئے وہ مجھ کو یا تو نظر نہیں آرہے ہیں یا پھر میں اس شعرکی حد تک انھیں عیوب میں شمار نہیں کرتا۔ اس کا ترجمہ آپ نے ناقص کیا ہے اور درجِ ذیل ترجمہ میرے مافی الضمیر کا حق بہتر طور سےادا کرتا ہے ۔
:سرور !کیاتیرا ہر وہ سجدہ جو تو نے اپنی انا کے حضور پیش کیا سجدہء کفر نہیں تھا؟(جبکہ ایسا سجدہ ء شرک وکفر نا قابل معافی گناہ ہے)۔پھر ایسا کرتے ہوئے کیاتیرے دل میں اللہ کا خوف بالکل نہیں تھا؟:
آپ نےاس مطلع کا جو متبادل شعر تجویز کیا ہے وہ ہر لحاظ سے نہایت کمزور ، بے فیض اور نا قابل استعمال ہے ۔
کفر سجدہ سرِ دربارِ انا تھا کہ نہ تھا
بول سرور تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا
آپ خود ہی غور کر لیں۔انتخاب الفاظ، بندش وغیرہ سے قطع نظر صرف :بول: کی معنویت ہی اس شعر کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہے[آپ بول کےمعنی ضرور جانتےہیں]۔ کسی شاعر نے اسے ضرور باندھا ہو گا لیکن غزل میں ایسا استعمال میں بہت معیوب گردانتاہوں اور اس سے احتراز مستحسن سمجھتا ہوں۔ زیادہ حد ادب!
---------------------------
ہم غریبان وفا تھے سو وفا دار رہے
:اس کو وہ جانے اسے پاس وفا تھا کہ نہ تھا:
غریبان وفا عام ترکیب ہے اور ہر اس معنی میں لی جا سکتی ہے جس میں دوسرے شعرا نے اسے باندھا ہے۔ شام غریباں ایک مخصوص معنی میں مستعمل ہے اور یہاں مقصود نہیں ہے۔ میں نے بیاض دیکھی تو میرے پاس بھی :اس کی وہ جانے: درج ہے گویا غزل میں مجھ سے کتابت کی غلطی ہوئی۔ تصحیح کا شکریہ ۔
----------------
حیف ڈھونڈا کیا تو راہ طلب میں اس کو
یہ بتا دل مرے کچھ اپنا پتا تھا کہ نہ تھا؟
اس غزل میں بندش پر بہت فکر کی گئی ہے۔ میں آپ سے متفق نہیں ہو سکا۔خدا جانے آپ جا بجا لڑکھڑا کیوں رہے ہیں۔چلئے ایک نمبر :صفائی کا : کاٹ لیجئے!
---------------------
ایک سایہ تھا ، گذرگاہ نظر تھی، میں تھا
کیا خبر مجھ کو کہ وہ کون تھا، کیا تھا ، کہ نہ تھا!
ایک عزیز دوست کو اس شعر میں عیب تنافر نظر آیا جو مجھ کو اپنی زیارت سے محروم چھوڑ گیا۔ ایسا ہوتا ہے اور یہ حیرت کا مقام نہیں ہے۔ یہ شعر آپ کو پسند آیا اور عیب تنافر سے اس پسند میں رخنہ نہیں پڑا، شکریہ۔ یہ شعر مجھ کو بھی بہت پسند ہے۔ الفاظ کا انتخاب،نشست، بندش کی چستی ، روانی سبھی حوالوں سے اس کو کامیاب کہنا چاہئے۔ آپ نے لکھا ہے کہ :مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کون تھا، کیا تھا یعنی ماہیت و نوعیت وغیرہ کے سوال اٹھانے کے فورا بعد ایک دم عدم وجود کا سوال کیوں ؟ ذوق تقاضہ کرتا ہے عدم وجود سے پہلے وجود کے متعلق سوال کا یعنی :وہ کون تھا ،کیا تھا ،تھا بھی کہ نہ تھا :یہ سوال عجیب ہےاور آپ کےاضطراب و تجسس پر دلالت کرتا ہے۔ پہلے مصرع میں :سایہ: کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں :کون،کیا:بآسانی کھپ جاتے ہیں یعنی سایہ کا گمان کرنے والا سمجھ نہیں پا رہا ہے کہ وھ کسی ہستی کو دیکھ رہا ہے یا وہم کا شکار ہے ۔الفاظ اتنے صاف ہیں کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔ شعر میں شاعر کی حیرت، لا علمی، تجسس، بے چینی اور اضطراب سب سمٹ کر آ گیا ہے۔یہ اس قسم کا شعر سمجھئے جسے محسوس کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور جس میں ماہیت اور نوعیت جیسی حقیقتیں موہوم و معدوم ہوتی ہیں یعنی شعر سائنس کی دنیا سے تعلق قطع کر کے جذبہ اور احساس کی سر زمین میں نغمہ پرداز ہوتا حے۔
----------------
زحمت زیست، غم آرزو، فکر دوراں
ہر گھڑی ایک نہ اک کھٹکا لگا تھا کہ نہ تھا؟
مجحے اعتراف ہے کہ اس شعر کا آہنگ غزل سے مختلف ہے اور شعر بھی کمزور ہے لیکن آپ کے اعتراض سے اتفاق نہیں ہے۔ البتہ پھر سوچنے میں ہرج نہیں سمجھتا۔ انشا اللہ۔
-----------------
ایک موہوم سی امید تھی،میں تھا ،مری تنہائی تھی
ٹمٹماتاہوا اک دل میں دِیا تھا کہ نہ تھا؟
شکریہ!
-------------------------
عشق تسبیح ازل، عشق ہی تسبیح ابد
عشق ہی حاصل صد صبحح و مسا تھا کہ نہ تھا؟
ماشااللہ، : ٹنٹا: کی بھی خوب ہی رہی۔ یہ ٹنٹا: اپنی خوشی سے اپنایا گیا ہے اور غزل کا نا گزیر اور خوبصورت حصہ ہے ۔ ویسے اس سے انکار نہیں کہ یہ شعر اصلاح چاہتا ہے۔ غالب کے شعر :
بھوں پاس آنکھ قبلہء حاجات چاہئے
مسجد کے زیر سایہ خرابات چاہئے
سے زیادہ قابل اعتراض تو نہیں ہے ؟ :)-
---------------------
ہر طرف لالہ ء و گل، بوئے بہا راں ہر سو
کون بتلائے کہ وہ جلوہ نما تھا کہ نہ تھا!
:کون:کو استفہامیہ انداز میں پڑھنے کے بجائے مایوسی اور آرزومندی کے لہجہ میں ادا کیجئے ۔ آپ کا سوال پھرجواب کا محتاج نہیں رہے گا۔ آزمائش شرط ہے! روانی میں ؟ لگانے کا عمل میکانکی طورپر ہو گیا۔اس پر دوسرا صفائی کا نمبر کاٹ لیجئے۔ کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
-----------------------
آپ کو آخری دو اشعار پسند آئے۔ اس کے لئے دلی شکریہ قبول کیجئے۔ کسی شاعر کے بھی سب اشعار یکساں معیار کے نہیں ہوتے اور ہو بھی نہیں سکتے ۔ یہ بے توجہی سے فکر کرنے کا جواز نہیں ہے محض اظہار واقعہ ہے۔ آپ کا تبصرہ باعث مسرت ہوا ۔ یہ کام جار ی رکھئےاور ساتھ ہی مطالعہ جاری رکھئے۔ا نشااللہ ملاقات ہوتی رہے گی۔
سرور عالم راز
 

یاسر شاہ

محفلین
استاد محترم آپ کا خط پڑھ کر بندہ مسرور و مست ہو گیا۔اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تا دیر قائم رکھے بمع صحت و عافیت۔آمین

آپ نے داد و بیداد کے جن دومروجہ طریقوں کا ذکرکیا ہے میں انھیں :تحصیل لا حاصل: کی مشترکہ ٹوکری کی خدمت تزئین کی نذر کرنے میں دیر نہیں کرتا کیونکہ وقت ضائع کرنے کے بہتر طریقوں سے بخوبی واقف ہوں۔
آپ کی شان استغناء متاثر کن ہے ،سخن فہمی جب کمیاب ہو تو داد بھی یوں دی جاتی ہے جیسے بھیک۔اور پھر مضامین بھی اشعار میں ایسے بندھنے لگ جاتے ہیں جن پر داد ملے۔بلکہ دو ایک شعرا کو تو خاص ایسے مضامین باندھتے ہوئے کثرت سے دیکھا کہ میں لٹ گیا،برباد ہو گیا ،پامال ہو گیا ۔جی میں تو آئی کہہ دوں ہٹے کٹے ہو داد مانگتے ہوئے حیا نہ آئی ۔
آپ کا تبصرہ مجھ پر کوئی یک لفظی ٹھپہ نہیں لگاتا او ر نہ ہی کوئی فتوی صادر کرتا ہے بلکہ آپ کی سنجیدگیء فکر پر دال ہے۔
جی محترمی! جب کسی سے طبیعت ملتی ہے اور مناسبت ہوتی ہے تو گفتگو کا جوش اٹھتا ہے سو ادھر ادھر کی باتیں کرنے کو بھی جی چاہتا ہے خصوصاً جبکہ آدمی ایک عرصے: صحبت ناجنس :کے کرب سے گزرا ہوا ہو ۔آپ کو یہاں دیکھ کے یوں سمجھیں میں دوبارہ فعال ہو گیا ہوں۔
تنقید شائستہ اور بے لاگ ہونی چاہئے
بے لاگ لکھنا تو آپ سے سیکھا امید ہے آپ کی رہنمائی میں شائستگی بھی سیکھ ہی جاؤں گا ۔

صاحب ساز پہ لازم ہے کہ غافل نہ رہے
گاہے گاہے غلط آہنگ بھی ہوتا ہے سروش
اقبال
آپ نےاس مطلع کا جو متبادل شعر تجویز کیا ہے وہ ہر لحاظ سے نہایت کمزور ، بے فیض اور نا قابل استعمال ہے ۔
کفر سجدہ سرِ دربارِ انا تھا کہ نہ تھا
بول سرور تجھے کچھ خوف خدا تھا کہ نہ تھا
آپ خود ہی غور کر لیں۔انتخاب الفاظ، بندش وغیرہ سے قطع نظر صرف :بول: کی معنویت ہی اس شعر کو مسترد کرنے کے لئے کافی ہے[آپ بول کےمعنی ضرور جانتےہیں]
اچھی بات ہے ۔آئندہ کوشش کروں گا کہ میں بھی :بول : لفظ سے غزل میں احتیاط کروں جیسے: مشکور : کے متعلق آپ کا مسلک اختیار کر رکھا ہے،بقول شاعر:
ہیں دلیلیں ترے خلاف مگر
سوچتا ہوں تری حمایت میں
باقی آپ نے جو فرمایا: آپ کے اعتراض: تو اعتراض ہوتے تو بحث ہوتی مگر یہ سب اشکالات تھے جو کافی حد تک آپ نے رفع فرما دیے ۔
جزاک اللہ خیر واحسن الجزا۔
 
Top