آنکھ میں پھر اک شعلہ سا لہرایا ہے
جانے کس بیوہ نے دیپک گایا ہے
گوندھ کے آٹا، اُس سے بنے کھلونوں سے
ماں نے روتے بچّے کو بہلایا ہے
کس کس اور سے کیا کیا طوطے آ جھپٹے
باغ میں جب سے پیڑ پہ پھل گدرایا ہے
جھونپڑیاں تک محلوں کے گُن گاتی ہیں
گھر گھر جانے کس آسیب کا سایا ہے
صاحبِ ثروت پھر نادار کے جبڑے میں
اپنے کام کے لفظ نئے رکھ آیا ہے
ساتھ کے گھر میں دیکھ کے پکتا خربوزہ
ماجدؔ بھی وڈیو کیسٹ لے آیا ہے
٭٭٭