فرحان محمد خان
محفلین
غزل
سر چشمۂ زندگی رہا ہوں
اور زہرِ حیات پی رہا ہوں
اپنی رگِ جاں پہ جی رہا ہوں
عفریت ہوں خون پی رہا ہوں
کانٹوں سے فگار انگلیاں ہیں
ملبوسِ بہار سی رہا ہوں
ہر سانس ہے مرگِ نو کا پیغام
ہر سانس کے ساتھ جی رہا ہوں
ہر منزلِ جہل و معرفت میں
تصویر خود آگہی رہا ہوں
اللہ کے قرب کے علاوہ
ابلیس کے ساتھ بھی رہا ہوں
میں قبلِ وجود بو البشر بھی
سر تا بہ پا زندگی رہا ہوں
ہر عہد میں آدمی رہوں گا
ہر عہد میں آدمی رہا ہوں
کس طرح رہا ہوں کیا بتاؤں؟
کہنے کو ہنسی خوشی رہا ہوں
سر چشمۂ زندگی رہا ہوں
اور زہرِ حیات پی رہا ہوں
اپنی رگِ جاں پہ جی رہا ہوں
عفریت ہوں خون پی رہا ہوں
کانٹوں سے فگار انگلیاں ہیں
ملبوسِ بہار سی رہا ہوں
ہر سانس ہے مرگِ نو کا پیغام
ہر سانس کے ساتھ جی رہا ہوں
ہر منزلِ جہل و معرفت میں
تصویر خود آگہی رہا ہوں
اللہ کے قرب کے علاوہ
ابلیس کے ساتھ بھی رہا ہوں
میں قبلِ وجود بو البشر بھی
سر تا بہ پا زندگی رہا ہوں
ہر عہد میں آدمی رہوں گا
ہر عہد میں آدمی رہا ہوں
کس طرح رہا ہوں کیا بتاؤں؟
کہنے کو ہنسی خوشی رہا ہوں
رئیس امروہوی
1965ء
1965ء
آخری تدوین: