فرحان محمد خان
محفلین
سنتا ہوں ذکر تنگیِ کنجِ مزار کا
کیونکر نبھے کا ساتھ دلِ بے قرار کا
ہے موسمِ خزاں میں بھی عالم بہار کا
گلدستہ ہے لحد میں دلِ داغدار کا
کہہ دو ذرا فلک سے کہ دامن سمیٹ لے
کرتا ہوں امتحاں نفسِ شعلہ بار کا
ہم بیکسوں کی قبر کہاں برگِ گل کہاں
صدقہ ہے سب یہ فیضِ نسیمِ بہار کا
آنکھیں کئے ہوں بند پسِ مرگ اس لئے
سرمہ کھٹک رہا ہے شبِ انتظار کا
تا فرش بزمِ دوست رسائی جو ہے صفیؔ
ہے عرش پر دماغ ہمارے غبار کا
کیونکر نبھے کا ساتھ دلِ بے قرار کا
ہے موسمِ خزاں میں بھی عالم بہار کا
گلدستہ ہے لحد میں دلِ داغدار کا
کہہ دو ذرا فلک سے کہ دامن سمیٹ لے
کرتا ہوں امتحاں نفسِ شعلہ بار کا
ہم بیکسوں کی قبر کہاں برگِ گل کہاں
صدقہ ہے سب یہ فیضِ نسیمِ بہار کا
آنکھیں کئے ہوں بند پسِ مرگ اس لئے
سرمہ کھٹک رہا ہے شبِ انتظار کا
تا فرش بزمِ دوست رسائی جو ہے صفیؔ
ہے عرش پر دماغ ہمارے غبار کا
صفیؔ لکھنوی