فرحان محمد خان
محفلین
غزل
سنّتِ حق ہے کرو حضرتِ انسان سے عشق
مجھ سے کافر کو بھی ہونے لگا ایمان سے عشق
گاہے دانتوں سے بھی کھلتی نہیں ہاتھوں کی گرہ
گاہے دشوار بھی ہو جاتے ہیں آسان سے عشق
ہمیں معلوم ہے یہ عشق حقیقت میں نہیں
ہم تو کرتے ہیں ترے عشق کے امکان سے عشق
ایک درویش نے مجھ کو یہ بشارت دی ہے
تیری پیشانی پہ لکھے ہیں پریشان سے عشق
ہمیں لیلٰی سے محبت ہے فقط لیلٰی سے
وہ تو مجنوں ہے جو کرتے ہے بیابان سے عشق
ایک دنیا کو محبت کا سلیقہ ہی نہیں
ایک دنیا نے کیا ہے مرے دیوان سے عشق
سنّتِ حق ہے کرو حضرتِ انسان سے عشق
مجھ سے کافر کو بھی ہونے لگا ایمان سے عشق
گاہے دانتوں سے بھی کھلتی نہیں ہاتھوں کی گرہ
گاہے دشوار بھی ہو جاتے ہیں آسان سے عشق
ہمیں معلوم ہے یہ عشق حقیقت میں نہیں
ہم تو کرتے ہیں ترے عشق کے امکان سے عشق
ایک درویش نے مجھ کو یہ بشارت دی ہے
تیری پیشانی پہ لکھے ہیں پریشان سے عشق
ہمیں لیلٰی سے محبت ہے فقط لیلٰی سے
وہ تو مجنوں ہے جو کرتے ہے بیابان سے عشق
ایک دنیا کو محبت کا سلیقہ ہی نہیں
ایک دنیا نے کیا ہے مرے دیوان سے عشق
عطا تراب