غزل : سنگ ریزہ کبھی الماس نہیں بھی ہوتا -اختر عثمان

غزل
سنگ ریزہ کبھی الماس نہیں بھی ہوتا
بعض اوقات یہ احساس نہیں بھی ہوتا

دلِ کج فہم ہے حسّاس نہیں بھی ہوتا
آدمی وقفِ غم و یاس نہیں بھی ہوتا

کتنی باتیں ہیں جو لکھنا ہی نہیں چاہتا میں
حرفِ گفتہ سرِ قرطاس نہیں بھی ہوتا

بہتا رہتا ہے مرے خون میں اک نقشِ جمیل
لمحۂ وصل مرے پاس نہیں بھی ہوتا

کیا ضروری ہے کہ دیوانہ سرِ دشت پھرے
ہجرت و ہجر میں بن باس نہیں بھی ہوتا

کربلا والیو بس چادرِ اطہر کا خیال
سرِ خیمہ کبھی عباس نہیں بھی ہوتا

آتے جاتے ہیں مرے پاس پرندے اخترؔ
ہاں کسی روز یہ اجلاس نہیں بھی ہوتا
اختر عثمان
 
Top