غزل : سورج ہوں زندگی کی رَمق چھوڑ جاؤں گا - اقبال ساجد

غزل
سورج ہوں زندگی کی رَمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شَفق چھوڑ جاؤں گا

تاریخ کربلائے سخن! دیکھنا کہ میں
خونِ جگر سے لکھ کے ورق چھوڑ جاؤں گا

اِک روشنی کی موت مروں گا زمین پر
جینے کا اس جہان میں حق چھوڑ جاؤں گا

روئیں گے میری یاد میں مہر و مہ و نجوم
ان آئنوں میں عکسِ قَلق چھوڑ جاؤں گا

وہ اوس کے درخت لگاؤں گا جا بہ جا
ہر بوند میں لہو کی رَمق چھوڑ جاؤں گا

گزروں گا شہرِ سنگ سے جب آئنہ لیے
چہرے کُھلے دریچوں میں فَق چھوڑ جاؤں گا

پہنچوں گا صحنِ باغ میں شبنم رُتوں کے ساتھ
سوکھے ہوئے گُلوں میں عرق چھوڑ جاؤں گا

ہر سُو لگیں گے مجھ سے صداقت کے اشتہار
ہر سُو محبتوں کے سبق چھوڑ جاؤں گا

ساجدؔ گلاب چال چلوں گا روش روش
دھرتی پہ گلستانِ شَفق چھوڑ جاؤں گا
اقبال ساجد
شامِ بہار ص 2
 
Top