محمد تابش صدیقی
منتظم
سکوں ہے، ملنے ملانے سے جان چھوٹ گئی
وبا چلی وہ، زمانے سے جان چھوٹ گئی
فراق و ہجر کے صدمے اٹھا رہے ہیں سبھی
سو اپنا حال بتانے سے جان چھوٹ گئی
ہو جس سے ملنا اسے حالِ دل سنا دینا
یوں دل کا درد لٹانے سے جان چھوٹ گئی
تعلقات نبھانے کو ملنا پڑتا تھا
تعلقات نبھانے سے جان چھوٹ گئی
میں جس سے ملتا تھا زیادہ اسے گنواتا تھا
وبا کی خیر، گنوانے سے جان چھوٹ گئی
وبا کا کرکے بہانہ تجھے بھی چھوڑ دیا
بہانے روز بنانے سے جان چھوٹ گئی
٭٭٭
محمد عثمان جامعی
وبا چلی وہ، زمانے سے جان چھوٹ گئی
فراق و ہجر کے صدمے اٹھا رہے ہیں سبھی
سو اپنا حال بتانے سے جان چھوٹ گئی
ہو جس سے ملنا اسے حالِ دل سنا دینا
یوں دل کا درد لٹانے سے جان چھوٹ گئی
تعلقات نبھانے کو ملنا پڑتا تھا
تعلقات نبھانے سے جان چھوٹ گئی
میں جس سے ملتا تھا زیادہ اسے گنواتا تھا
وبا کی خیر، گنوانے سے جان چھوٹ گئی
وبا کا کرکے بہانہ تجھے بھی چھوڑ دیا
بہانے روز بنانے سے جان چھوٹ گئی
٭٭٭
محمد عثمان جامعی