غزل---شاید مرا مونس، مرا غمخوار نہیں تھا

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم!
ایک غزل پیشِ خدمت ہے:

(نذرِ میر)

سن عرضِ غمِ ہجر وہ کیوں چیں بہ جبیں تھا
شاید مرا مونس مرا غمخوار نہیں تھا

خورشید بھی تھا سرخ کہ جلتا تھا حسد سے
کل شام کھڑا بام پہ وہ شعلہ جبیں تھا

وہ آج تہِ خاک ہے کیڑوں کے کرم پر
کل تک جو ستم پیشہ و مختارِ زمیں تھا

ہر سمت سے گرگانِ ہوس حملہ کناں تھے
بزغالہ کے مانند مرا قلبِ حزیں تھا

تجھ حسن کی گرمی کی نہ تھی تاب کسی میں
مجھ دل کی طرح آئینہ جلنے کے قریں تھا
 
مدیر کی آخری تدوین:
ماشاءاللہ ۔۔۔ بہت خوب اور قابلِ رشک!
وہ آج تہِ خاک ہے کیڑوں کے کرم پر
کل تک جو ستم پیشہ و مختارِ زمیں تھا
بس اس شعر میں اگر کیڑوں کی جگہ اگر حشرات لاسکیں تو شعر باقی غزل کے عمومی اسلوب و آہنگ سے زیادہ قریب ہوجائے گا۔ فارسی اور عربی الاصل الفاظ کے بیچ ’’کیڑے‘‘ کچھ عجیب لگ رہا ہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 

منذر رضا

محفلین
حوصلہ افزائی کے لئے ممنون ہوں احبابِ گرامی کا۔
راحل بھائی دراصل میں "بوجوہ" کیڑوں کو اس شعر میں رکھنا چاہتا ہوں:)
 
السلام علیکم!
ایک غزل پیشِ خدمت ہے:

(نذرِ میر)

سن عرضِ غمِ ہجر وہ کیوں چیں بہ جبیں تھا
شاید مرا مونس مرا غمخوار نہیں تھا

خورشید بھی تھا سرخ کہ جلتا تھا حسد سے
کل شام کھڑا بام پہ وہ شعلہ جبیں تھا

وہ آج تہِ خاک ہے کیڑوں کے کرم پر
کل تک جو ستم پیشہ و مختارِ زمیں تھا

ہر سمت سے گرگانِ ہوس حملہ کناں تھے
بزغالہ کے مانند مرا قلبِ حزیں تھا

تجھ حسن کی گرمی کی نہ تھی تاب کسی میں
مجھ دل کی طرح آئینہ جلنے کے قریں تھا
خوبصورت خوبصورت۔ کیا بات ہے! داد سمیٹیے صاحب!
 

عاطف ملک

محفلین
السلام علیکم!
ایک غزل پیشِ خدمت ہے:

(نذرِ میر)

سن عرضِ غمِ ہجر وہ کیوں چیں بہ جبیں تھا
شاید مرا مونس مرا غمخوار نہیں تھا

خورشید بھی تھا سرخ کہ جلتا تھا حسد سے
کل شام کھڑا بام پہ وہ شعلہ جبیں تھا

وہ آج تہِ خاک ہے کیڑوں کے کرم پر
کل تک جو ستم پیشہ و مختارِ زمیں تھا

ہر سمت سے گرگانِ ہوس حملہ کناں تھے
بزغالہ کے مانند مرا قلبِ حزیں تھا

تجھ حسن کی گرمی کی نہ تھی تاب کسی میں
مجھ دل کی طرح آئینہ جلنے کے قریں تھا
کمال۔۔۔۔۔بہت خوب
 
Top