مصحفی غزل - شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے -غلام ہمدانی مصحفی

غزل

شب وہ ان آنکھوں کو شغل اشکباری دے گئے
لے گئے خواب ان کا اور اختر شماری دے گئے

چلتے چلتے اس ادا سے وعدہ آنے کا کیا
دے کے ہاتھ اس دل پہ اور اک زخم کاری دے گئے

خواب و خور صبر و سکوں یکبار سب جاتا رہا
بے قرار اپنے کو کیسی بے قراری دے گئے
ٴ
یہ خبر تو نے سنی ہو گی کہ اس کوچے میں رات
داد رونے کی ہم اے ابر بہاری دے گئے

گر کہیں آیا نظر ان کو کوئی مٹی کا ڈھیر
گالیاں اس کو سمجھ تربت ہماری دے گئے

آپ تو جاتے رہے باتیں بنا اور مجھ کو آہ
بے قراری بے خودہ بے اختیاری دے گئے

گر ہوا عزم سفر ان کا سحر مصحفی
وقت شام آ کر مجھے اپنی کٹاری دے گئے
ٴ
غلام ہمدانی مصحفی​
 
Top