محمد تابش صدیقی
منتظم
شب کو یہ سلسلہ ہے برسوں سے
گھر کا گھر جاگتا ہے برسوں سے
جانے کیا ہے کہ اس ندی کے پار
اک دیا جل رہا ہے برسوں سے
چلنے والے رکے رہیں کب تک
راستہ بن رہا ہے برسوں سے
روز مل کر بھی کم نہیں ہوتا
دل میں وہ فاصلہ ہے برسوں سے
اب کے طرزِ تعلقات ہے اور
یوں تو وہ آشنا ہے برسوں سے
سوچ یہ ختم ہو نہ جائے کہیں
دل یہی سوچتا ہے برسوں سے
کس پتے پر اسے تلاش کروں
شخص اک کھو گیا ہے برسوں سے
کس کو آواز دے رہے ہو سلیمؔ
شہر یہ سو رہا ہے برسوں سے
٭٭٭
سلیم احمد
گھر کا گھر جاگتا ہے برسوں سے
جانے کیا ہے کہ اس ندی کے پار
اک دیا جل رہا ہے برسوں سے
چلنے والے رکے رہیں کب تک
راستہ بن رہا ہے برسوں سے
روز مل کر بھی کم نہیں ہوتا
دل میں وہ فاصلہ ہے برسوں سے
اب کے طرزِ تعلقات ہے اور
یوں تو وہ آشنا ہے برسوں سے
سوچ یہ ختم ہو نہ جائے کہیں
دل یہی سوچتا ہے برسوں سے
کس پتے پر اسے تلاش کروں
شخص اک کھو گیا ہے برسوں سے
کس کو آواز دے رہے ہو سلیمؔ
شہر یہ سو رہا ہے برسوں سے
٭٭٭
سلیم احمد