ن
نامعلوم اول
مہمان
نوجوانی کے زمانے کی ایک اور یادگار:
ہر مکینِ دیارِ اُلفت کو
کشتۂِ تیغِ آرزو کہیے
کاش مل جائے حسن والوں میں
اک صنم جس کو نیک خو کہیے
میں نے چاہا ہے ایک بت کو جسے
ماہ و انجم کی آبرو کہیے
ذکر آجائے جب محبّت کا
چشمِ گریاں کو آبجو کہیے
دل کو سو بار مبتلا لکھیے
اور جگر کو لہو لہو کہیے
ہجر کے بیقرار لمحوں کو
ثمرِ ذوقِ جستجو کہیے
آج کی شب بہ لطفِ غنچہ دہن
خامشی کو بھی گفتگو کہیے
غمِ ہجراں کا نام مت لیجے
داستانِ مے و سبو کہیے
میرے ایک ایک شعر کو کاملؔ
موجِ دریائے رنگ و بو کہیے
شکوۂ یارِ فتنہ خو کہیے
یا ستمگارئِ عدو کہیے
یا ستمگارئِ عدو کہیے
ہر مکینِ دیارِ اُلفت کو
کشتۂِ تیغِ آرزو کہیے
کاش مل جائے حسن والوں میں
اک صنم جس کو نیک خو کہیے
میں نے چاہا ہے ایک بت کو جسے
ماہ و انجم کی آبرو کہیے
قطعہ
ذکر آجائے جب محبّت کا
چشمِ گریاں کو آبجو کہیے
دل کو سو بار مبتلا لکھیے
اور جگر کو لہو لہو کہیے
ہجر کے بیقرار لمحوں کو
ثمرِ ذوقِ جستجو کہیے
آج کی شب بہ لطفِ غنچہ دہن
خامشی کو بھی گفتگو کہیے
غمِ ہجراں کا نام مت لیجے
داستانِ مے و سبو کہیے
میرے ایک ایک شعر کو کاملؔ
موجِ دریائے رنگ و بو کہیے