محمد حفیظ الرحمٰن
محفلین
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
صبح کے دھوکے میں پھر شام اٹھا کر لے آئے
چاہا آغاز تھا ، انجام اٹھا کر لے آئے
جب پڑا وقت تو سب چھوڑ دیا مال و منال
نقدِ دل اور کچھ الزام اٹھا کر لے آئے
تیرگی جب بھی کبھی مدِ مقابل آئی
اک دیا ہم بھی سرِ شام اٹھا کر لے آئے
جام تک اپنی رسائی جو کبھی ہو نہ سکی
بزم سے دردِ تہِ جام اٹھا کر لے آئے
رات بھر جاگ کے بس آنکھ لگی تھی میری
کیوں مجھے صبح کے ہنگام اٹھا کر لے آئے
دیدنی تھا افقِ دل پہ ستاروں کا ہجوم
ہم وہ منظر بھی لبِ بام اٹھا کر لے آئے
لطف آ جائے جو ماضی کے خزینے سے حفیظ
کوئی چپکے سے وہ اک شام اٹھا کر لے آئے