غزل صبح کے دھوکے میں پھر شام اٹھا کر لے آئے از ۔ محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
محمد حفیظ الرحمٰن
صبح کے دھوکے میں پھر شام اٹھا کر لے آئے
چاہا آغاز تھا ، انجام اٹھا کر لے آئے
جب پڑا وقت تو سب چھوڑ دیا مال و منال
نقدِ دل اور کچھ الزام اٹھا کر لے آئے
تیرگی جب بھی کبھی مدِ مقابل آئی
اک دیا ہم بھی سرِ شام اٹھا کر لے آئے
جام تک اپنی رسائی جو کبھی ہو نہ سکی
بزم سے دردِ تہِ جام اٹھا کر لے آئے
رات بھر جاگ کے بس آنکھ لگی تھی میری
کیوں مجھے صبح کے ہنگام اٹھا کر لے آئے
دیدنی تھا افقِ دل پہ ستاروں کا ہجوم
ہم وہ منظر بھی لبِ بام اٹھا کر لے آئے
لطف آ جائے جو ماضی کے خزینے سے حفیظ
کوئی چپکے سے وہ اک شام اٹھا کر لے آئے
 
ادارے کے منتظمین سے درخواست ہے کی میری تازہ غزل کے آخری شعر میں ٹائپنگ کی غلطی ہو گئی ہے۔ برائے مہربانی آخری شعر میں چرا کر لے آئے کی جگہ اٹھا کر لے آئے کر دیا جائے۔ بڑی نوازش ہوگی۔
 

شوکت پرویز

محفلین
بہت خوب صورت غزل ہے جناب محمد حفیظ الرحمٰن صاحب، خاص طور پر یہ اشعار:
صبح کے دھوکے میں پھر شام اٹھا کر لے آئے
چاہا آغاز تھا ، انجام اٹھا کر لے آئے
جب پڑا وقت تو سب چھوڑ دیا مال و منال
نقدِ دل اور کچھ الزام اٹھا کر لے آئے
شکریہ۔۔۔
 

محمد وارث

لائبریرین
جناب شوکت پرویز صاحب اور جناب سید ناصر شہزاد صاحب۔ آپ دونوں کو غزل پسند آئی اس پر بڑی خوشی ہوئی۔ داد اور حوصلہ افزائی پر بہت مشکور ہوں۔ بہت بہت شکریہ۔
 
جناب محمد وارث صاحب۔ ٹایپنگ کی غلطی درست کرنے کا بہت شکریہ۔ مجھے بڑی خوشی ہے کی غزل آپ کو پسند آئی۔ حوصلہ افزائی کرنے پر آپ کا مشکور ہوں۔ بڑی نوازش۔
 
صبح کے دھوکے میں پھر شام اٹھا کر لے آئے
چاہا آغاز تھا ، انجام اٹھا کر لے آئے
جب پڑا وقت تو سب چھوڑ دیا مال و منال
نقدِ دل اور کچھ الزام اٹھا کر لے آئے
تیرگی جب بھی کبھی مدِ مقابل آئی
اک دیا ہم بھی سرِ شام اٹھا کر لے آئے
جام تک اپنی رسائی جو کبھی ہو نہ سکی
بزم سے دردِ تہِ جام اٹھا کر لے آئے
رات بھر جاگ کے بس آنکھ لگی تھی میری
کیوں مجھے صبح کے ہنگام اٹھا کر لے آئے
دیدنی تھا افقِ دل پہ ستاروں کا ہجوم
ہم وہ منظر بھی لبِ بام اٹھا کر لے آئے
لطف آ جائے جو ماضی کے خزینے سے حفیظ
کوئی چپکے سے وہ اک شام اٹھا کر لے آئے
بہت عمدہ ۔ دادا قبول ہو محمد حفیظ الرحمٰن
مقطع تو غضب ڈھاگیا۔
 
پیارے شہریار غزل کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔ تمہاری میل میں نےآج ہی دیکھی ہے۔ کافی دنوں بعد اردو محفل میں آیا ہوں۔ بہت شکریہ۔
 

امین شارق

محفلین
غزل
محمد حفیظ الرحمٰن


صبح کے دھوکے میں پھر شام اٹھا کر لے آئے
چاہا آغاز تھا ، انجام اٹھا کر لے آئے


جب پڑا وقت تو سب چھوڑ دیا مال و منال
نقدِ دل اور کچھ الزام اٹھا کر لے آئے


تیرگی جب بھی کبھی مدِ مقابل آئی
اک دیا ہم بھی سرِ شام اٹھا کر لے آئے


جام تک اپنی رسائی جو کبھی ہو نہ سکی
بزم سے دردِ تہِ جام اٹھا کر لے آئے


رات بھر جاگ کے بس آنکھ لگی تھی میری
کیوں مجھے صبح کے ہنگام اٹھا کر لے آئے


دیدنی تھا افقِ دل پہ ستاروں کا ہجوم
ہم وہ منظر بھی لبِ بام اٹھا کر لے آئے


لطف آ جائے جو ماضی کے خزینے سے حفیظ
کوئی چپکے سے وہ اک شام اٹھا کر لے آئے
خوبصورت غزل۔
کتنی اچھی غزل کہی ہے واہ خوب جناب
لگتا ہے میر کا کلام اٹھا کر لے آئے
 
Top