غزل: صبح ہوگی ، رات کالی جائے گی

احباب گرامی، سلام عرض ہے!
جناب جلیل مانکپوری کی زمین میں ایک کوشش پیش خدمت ہے . دیکھیے شاید کسی قابل ہو . آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .

صبح ہوگی ، رات کالی جائے گی
شمع کی آشفتہ حالی جائے گی

اک تمنا دِل میں جاگی ہے پِھر آج
پِھر نظر بن کر سوالی جائے گی

وہ نظر آیا کہیں جو بے حجاب
پِھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی

دِل میں کچھ ہو اور زباں پر اور کچھ
ہَم سے یہ خصلت نہ پالی جائے گی

شاہ کی ہو یا بھکاری کی ، مگر
موت اک پل بھی نہ ٹالی جائے گی

چاہ مال و زَر کی ہوگی جب ہمیں
خاک مُٹّھی میں اٹھا لی جائے گی

اپنی ہستی کو مٹائینگے ہَم ، اور
عشق کی بنیاد ڈالی جائے گی

عمر ڈھلنے کو ہے ، اے دِل ، کچھ بتا
کب تری حسرت نکالی جائے گی

کہہ كے یہ عابدؔ کیا دَر اس نے بند
آ ، تری جھولی نہ خالی جائے گی

اور اب اہل علم كے لیے ایک سوال . کچھ عرصہ قبل ریختہ پر مصحفی کا یہ شعر نگاہ سے گزرا :
لا ابالی مری دیکھے ہے تُو آئینہ کہاں
دِل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں
میں نے لفظ ’لا ابالی‘ کو اِس سے قبل صرف صفت كے طور پر مستعمل دیکھا تھا . اِس لفظ کے بطور اسم استعمال کا میرا یہ پہلا مشاہدہ تھا . چونکہ مصحفی کا کہا سند ہے ، میں نے اِس علم کی روشنی میں اپنے آٹھویں شعر کا دوسرا مصرعہ پہلے یوں کہا تھا : کب یہ تیری لا ابالی جائے گی . لیکن غزل کو آخری شکل دینے سے پہلے میں نے ایک مرتبہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی . تلاش کرنے پر ایسی کوئی اور مثال نہیں ملی جہاں ’لا ابالی‘ کو اسم کی طرح برتا گیا ہو . لہٰذا میں نے اپنا مصرعہ بَدَل دیا . کیا آپ کی نگاہ سے ایسی کوئی مثال گزری ہے ؟

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ! بہت خوب ، عرفان بھائی !
اچھی غزل ہے ! داد قبول کیجیے۔

عمر ہے ڈھلنے کو اے دِل ، کچھ بتا
کب تری حسرت نکالی جائے گی

بہت خوب ! اچھا کہا ہے!
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ عرصہ قبل ریختہ پر مصحفی کا یہ شعر نگاہ سے گزرا :
لا ابالی مری دیکھے ہے تُو آئینہ کہاں
دِل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں
میں نے لفظ ’لا ابالی‘ کو اِس سے قبل صرف صفت كے طور پر مستعمل دیکھا تھا . اِس لفظ کے بطور اسم استعمال کا میرا یہ پہلا مشاہدہ تھا . چونکہ مصحفی کا کہا سند ہے ، میں نے اِس علم کی روشنی میں اپنے آٹھویں شعر کا دوسرا مصرعہ پہلے یوں کہا تھا : کب یہ تیری لا ابالی جائے گی . لیکن غزل کو آخری شکل دینے سے پہلے میں نے ایک مرتبہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی . تلاش کرنے پر ایسی کوئی اور مثال نہیں ملی جہاں ’لا ابالی‘ کو اسم کی طرح برتا گیا ہو . لہٰذا میں نے اپنا مصرعہ بَدَل دیا . کیا آپ کی نگاہ سے ایسی کوئی مثال گزری ہے ؟
عرفان بھائی ، لا ابالی اردو میں اسم اور صفت دونوں معنوں میں مستعمل ہے ۔
اصلاً تو یہ عربی فقرہ ہے ۔ لا اَدری ( میں نہیں جانتا) کی طرز پر لا اُبالی ( میں نہیں ڈرتا) ۔ فارسی سے اردو میں آیا ہے اور بطور صفت اور موصوف دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں عصری اردو میں بطور صفت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے مصرع میں استعمال کیا ۔ بطور موصوف یعنی اسم کے طور پر اس کی سات آٹھ شعری مثالیں نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ میں مندرج ہیں ۔ ایک دو وہاں سے نقل کرتا ہوں ۔
ملادے لب سے لب ساقی ، لگادے منہ سے منہ ساقی
میں رندِ لاابالی ہوں ، تو مستِ لاابالی ہے

قصد تھا بحؔر کا بتخانے سے کعبہ کی طرف
لاابالی ہے خدا جانے گیا یا نہ گیا

ٹصور میں ترے کہیو صبا اس لاابالی سے
گلے لگ لگے کے رویا رات تصویرِ نہالی سے

بطور صفت بھی اس کی کئی شعری مثالیں مذکورہ بالا لغات میں موجود ہیں ۔ لیکن انہیں یہاں نقل کرنے کی شاید ضرورت نہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اور اب اہل علم كے لیے ایک سوال . کچھ عرصہ قبل ریختہ پر مصحفی کا یہ شعر نگاہ سے گزرا :
لا ابالی مری دیکھے ہے تُو آئینہ کہاں
دِل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں
خوب علوی صاحب بہت پسند آئی غزل ۔ مانکپوری صاحب کی یاد تازہ ہوئی ۔
خوب اشعار ہیں ۔
مٹھی اور بنیاد والے مصرعے تو بے حد کمال کے لگے۔اور ساری غزل ہی اچھی ہے۔

عموماََ لاابالی پن استعمال ہونے لگا ہے اب ایسے ہی جیسے دیوانہ پن ۔
لیکن مصحفی کا شعر زبردست ہے۔ہمیں اس کو زندہ رکھنا چاہیئے :) ۔
 
عرفان بھائی ، لا ابالی اردو میں اسم اور صفت دونوں معنوں میں مستعمل ہے ۔
اصلاً تو یہ عربی فقرہ ہے ۔ لا اَدری ( میں نہیں جانتا) کی طرز پر لا اُبالی ( میں نہیں ڈرتا) ۔ فارسی سے اردو میں آیا ہے اور بطور صفت اور موصوف دونوں طرح استعمال ہوتا ہے ۔ میرے خیال میں عصری اردو میں بطور صفت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ آپ نے اپنے مصرع میں استعمال کیا ۔ بطور موصوف یعنی اسم کے طور پر اس کی سات آٹھ شعری مثالیں نوراللغات اور فرہنگ آصفیہ میں مندرج ہیں ۔ ایک دو وہاں سے نقل کرتا ہوں ۔
ملادے لب سے لب ساقی ، لگادے منہ سے منہ ساقی
میں رندِ لاابالی ہوں ، تو مستِ لاابالی ہے

قصد تھا بحؔر کا بتخانے سے کعبہ کی طرف
لاابالی ہے خدا جانے گیا یا نہ گیا

ٹصور میں ترے کہیو صبا اس لاابالی سے
گلے لگ لگے کے رویا رات تصویرِ نہالی سے

بطور صفت بھی اس کی کئی شعری مثالیں مذکورہ بالا لغات میں موجود ہیں ۔ لیکن انہیں یہاں نقل کرنے کی شاید ضرورت نہیں۔
ظہیر بھائی ، آپ نے ہمیشہ کی طرح بڑے جتن اور خلوص سے معلومات فراہم کی ہیں ، اور میرے پاس شکریہ كے لیے الفاظ کم پڑ رہے ہیں . تصدیق كے لیے ممنون ہوں . چونکہ مصحفی والے استعمال کی کوئی اور مثال نہیں مل رہی تھی ، میں ذرا شک میں پڑ گیا تھا . مصحفی سے غلطی کا امکان تو خیر کیا ہوتا ، مجھے لگا کہ شاید ریختہ والوں سے شعر نقل کرتے وقت کوتاہی ہوئی ہے .

لیکن ظہیر بھائی ، جو امثال آپ نے عنایت فرمائی ہیں ، وہ صفت كے زمرے میں نہیں آتیں ؟ ایسی امثال تو نظر آئی تھیں بشمول مندرجہ بالا اشعار كے . میں نے شاید اپنا موقف واضح طور پر بیان نہیں کیا . اسم سے noun مراد تھی ، اور اس کی کوئی مثال مجھے نظر نہیں آئی . بہر حال ، عنایت کا بہت بہت شکریہ !
 
خوب علوی صاحب بہت پسند آئی غزل ۔ مانکپوری صاحب کی یاد تازہ ہوئی ۔
خوب اشعار ہیں ۔
مٹھی اور بنیاد والے مصرعے تو بے حد کمال کے لگے۔اور ساری غزل ہی اچھی ہے۔

عموماََ لاابالی پن استعمال ہونے لگا ہے اب ایسے ہی جیسے دیوانہ پن ۔
لیکن مصحفی کا شعر زبردست ہے۔ہمیں اس کو زندہ رکھنا چاہیئے :) ۔
عاطف بھائی ، آپ کی داد سَر آنكھوں پر ! بے حد احسان مند ہوں . جی ، میں نے بھی لا ابالی پن ہی سنا تھا ، اسی لیے تھوڑا شبہ ہو گیا تھا . مصحفی كے شعر پر آپ کی رائے سے اِتِّفاق ہے . :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عاطف بھائی ، آپ کی داد سَر آنكھوں پر ! بے حد احسان مند ہوں . جی ، میں نے بھی لا ابالی پن ہی سنا تھا ، اسی لیے تھوڑا شبہ ہو گیا تھا . مصحفی كے شعر پر آپ کی رائے سے اِتِّفاق ہے . :)
عرفان بھائی ، آپ نے بالکل درست نوٹ کیا ۔ میں خود لکھتے وقت متذبذب تھا کہ آیا میں نے آپ کا سوال درست سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ اردو گرامر میں عموماً صفت کو اسم ہی کے ذیل میں لکھا جاتا ہے اور اسے اسمِ صفت کا نام دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اسمِ کیفیت کو بھی اسم ہی کی قسم کے ذیل میں رکھا جاتا ہے ۔ اس میں تمیز کے لیے میں نے صفت اور موصوف کے الفاظ استعمال کیے لیکن اس سے بات واضح ہونے کے بجائے اور الجھ گئی ۔ جو امثال میں نے اوپر نقل کیں وہ صفت کی ہیں ۔ لاابالی بطور اسمِ کیفیت (یعنی لاابالی پن :)) کی مثالیں اب نقل کررہاہوں :

کلاہِ کج سے ہر غنچے کی ہے پیدا گلستاں میں
کہ کیا کیا اس چمن میں دلبروں کی لا ابالی تھی
میر تقی میرؔ

رحم آیا نہ خستہ حالی پر
ضد رہی اپنی لا ابالی پر
مومؔن
 
عرفان بھائی ، آپ نے بالکل درست نوٹ کیا ۔ میں خود لکھتے وقت متذبذب تھا کہ آیا میں نے آپ کا سوال درست سمجھا بھی ہے یا نہیں۔ اردو گرامر میں عموماً صفت کو اسم ہی کے ذیل میں لکھا جاتا ہے اور اسے اسمِ صفت کا نام دیا جاتا ہے ۔ اسی طرح اسمِ کیفیت کو بھی اسم ہی کی قسم کے ذیل میں رکھا جاتا ہے ۔ اس میں تمیز کے لیے میں نے صفت اور موصوف کے الفاظ استعمال کیے لیکن اس سے بات واضح ہونے کے بجائے اور الجھ گئی ۔ جو امثال میں نے اوپر نقل کیں وہ صفت کی ہیں ۔ لاابالی بطور اسمِ کیفیت (یعنی لاابالی پن :)) کی مثالیں اب نقل کررہاہوں :

کلاہِ کج سے ہر غنچے کی ہے پیدا گلستاں میں
کہ کیا کیا اس چمن میں دلبروں کی لا ابالی تھی
میر تقی میرؔ

رحم آیا نہ خستہ حالی پر
ضد رہی اپنی لا ابالی پر
مومؔن
ظہیر بھائی ، بہت شکریہ !
 

محمداحمد

لائبریرین
سبحان اللہ !

کیا بات ہے

صبح ہوگی ، رات کالی جائے گی
شمع کی آشفتہ حالی جائے گی
واہ!
دِل میں کچھ ہو اور زباں پر اور کچھ
ہَم سے یہ خصلت نہ پالی جائے گی
کیا کہنے!
شاہ کی ہو یا بھکاری کی ، مگر
موت اک پل بھی نہ ٹالی جائے گی
کیا بات ہے۔

واقعی موت اٹل ہے۔
چاہ مال و زَر کی ہوگی جب ہمیں
خاک مُٹّھی میں اٹھا لی جائے گی
بہت خوب!

بہت اچھا فارمولہ ہے۔

عمر ڈھلنے کو ہے ، اے دِل ، کچھ بتا
کب تری حسرت نکالی جائے گی

واہ ! لااُبالی والے مصرع کے ساتھ اور اچھا لگے گا۔ :)

بہت اچھی غزل ہے عرفان بھائی !

بہت داد قبول فرمایئے۔ :)
 
سبحان اللہ !

کیا بات ہے


واہ!

کیا کہنے!

کیا بات ہے۔

واقعی موت اٹل ہے۔

بہت خوب!

بہت اچھا فارمولہ ہے۔



واہ ! لااُبالی والے مصرع کے ساتھ اور اچھا لگے گا۔ :)

بہت اچھی غزل ہے عرفان بھائی !

بہت داد قبول فرمایئے۔ :)
احمد بھائی ، جواب میں تاخیر كے لیے معذرت خواه ہوں . آپ کی گراں قدر داد میرے لیے باعث صد مسرت ہے . بہت شکریہ !
 
Top