عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی، سلام عرض ہے!
جناب جلیل مانکپوری کی زمین میں ایک کوشش پیش خدمت ہے . دیکھیے شاید کسی قابل ہو . آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .
صبح ہوگی ، رات کالی جائے گی
شمع کی آشفتہ حالی جائے گی
اک تمنا دِل میں جاگی ہے پِھر آج
پِھر نظر بن کر سوالی جائے گی
وہ نظر آیا کہیں جو بے حجاب
پِھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
دِل میں کچھ ہو اور زباں پر اور کچھ
ہَم سے یہ خصلت نہ پالی جائے گی
شاہ کی ہو یا بھکاری کی ، مگر
موت اک پل بھی نہ ٹالی جائے گی
چاہ مال و زَر کی ہوگی جب ہمیں
خاک مُٹّھی میں اٹھا لی جائے گی
اپنی ہستی کو مٹائینگے ہَم ، اور
عشق کی بنیاد ڈالی جائے گی
عمر ڈھلنے کو ہے ، اے دِل ، کچھ بتا
کب تری حسرت نکالی جائے گی
کہہ كے یہ عابدؔ کیا دَر اس نے بند
آ ، تری جھولی نہ خالی جائے گی
اور اب اہل علم كے لیے ایک سوال . کچھ عرصہ قبل ریختہ پر مصحفی کا یہ شعر نگاہ سے گزرا :
لا ابالی مری دیکھے ہے تُو آئینہ کہاں
دِل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں
میں نے لفظ ’لا ابالی‘ کو اِس سے قبل صرف صفت كے طور پر مستعمل دیکھا تھا . اِس لفظ کے بطور اسم استعمال کا میرا یہ پہلا مشاہدہ تھا . چونکہ مصحفی کا کہا سند ہے ، میں نے اِس علم کی روشنی میں اپنے آٹھویں شعر کا دوسرا مصرعہ پہلے یوں کہا تھا : کب یہ تیری لا ابالی جائے گی . لیکن غزل کو آخری شکل دینے سے پہلے میں نے ایک مرتبہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی . تلاش کرنے پر ایسی کوئی اور مثال نہیں ملی جہاں ’لا ابالی‘ کو اسم کی طرح برتا گیا ہو . لہٰذا میں نے اپنا مصرعہ بَدَل دیا . کیا آپ کی نگاہ سے ایسی کوئی مثال گزری ہے ؟
نیازمند،
عرفان عابدؔ
جناب جلیل مانکپوری کی زمین میں ایک کوشش پیش خدمت ہے . دیکھیے شاید کسی قابل ہو . آپ کی رائے کا انتظار رہیگا .
صبح ہوگی ، رات کالی جائے گی
شمع کی آشفتہ حالی جائے گی
اک تمنا دِل میں جاگی ہے پِھر آج
پِھر نظر بن کر سوالی جائے گی
وہ نظر آیا کہیں جو بے حجاب
پِھر طبیعت کیا سنبھالی جائے گی
دِل میں کچھ ہو اور زباں پر اور کچھ
ہَم سے یہ خصلت نہ پالی جائے گی
شاہ کی ہو یا بھکاری کی ، مگر
موت اک پل بھی نہ ٹالی جائے گی
چاہ مال و زَر کی ہوگی جب ہمیں
خاک مُٹّھی میں اٹھا لی جائے گی
اپنی ہستی کو مٹائینگے ہَم ، اور
عشق کی بنیاد ڈالی جائے گی
عمر ڈھلنے کو ہے ، اے دِل ، کچھ بتا
کب تری حسرت نکالی جائے گی
کہہ كے یہ عابدؔ کیا دَر اس نے بند
آ ، تری جھولی نہ خالی جائے گی
اور اب اہل علم كے لیے ایک سوال . کچھ عرصہ قبل ریختہ پر مصحفی کا یہ شعر نگاہ سے گزرا :
لا ابالی مری دیکھے ہے تُو آئینہ کہاں
دِل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں
میں نے لفظ ’لا ابالی‘ کو اِس سے قبل صرف صفت كے طور پر مستعمل دیکھا تھا . اِس لفظ کے بطور اسم استعمال کا میرا یہ پہلا مشاہدہ تھا . چونکہ مصحفی کا کہا سند ہے ، میں نے اِس علم کی روشنی میں اپنے آٹھویں شعر کا دوسرا مصرعہ پہلے یوں کہا تھا : کب یہ تیری لا ابالی جائے گی . لیکن غزل کو آخری شکل دینے سے پہلے میں نے ایک مرتبہ تصدیق کی ضرورت محسوس کی . تلاش کرنے پر ایسی کوئی اور مثال نہیں ملی جہاں ’لا ابالی‘ کو اسم کی طرح برتا گیا ہو . لہٰذا میں نے اپنا مصرعہ بَدَل دیا . کیا آپ کی نگاہ سے ایسی کوئی مثال گزری ہے ؟
نیازمند،
عرفان عابدؔ