غزل: ظلمتِ شب میں اجالے کا نشاں کوئی نہیں ۔۔۔

ظلمتِ شب میں اجالے کا نشاں کوئی نہیں
اب شکست اور حوصلے کے درمیاں کوئی نہیں

آسماں سے مت الجھنا دوست، اس کا انتقام
آگ وہ برسائے گا جس سے اماں کوئی نہیں

عمر بھر کرکے لہو سے آبیاریٔ چمن
آج کل سنتے ہیں اپنا گلستاں کوئی نہیں

کہہ رہی ہیں بھیڑ کی بے سمت آوازیں کہ لوگ
منہ میں بس اک عضو رکھتے ہیں، زباں کوئی نہیں!

سب ہی اندازے لگا کر دیں گے ہمدردی کی بھیک
جس پہ گزری اس سے سنتا داستاں کوئی نہیں!

چاندنی پھیکی سی ہے، کہتے ہیں الٹا کر نقاب
آپ سا معصوم ہائے جانِ جاں کوئی نہیں

ہاں یقیناً سوز میں تھی کچھ کمی باقی کہ جو
عرش تک راحلؔ کبھی پہنچی فغاں کوئی نہیں!
 

یاسر شاہ

محفلین
آسماں سے مت الجھنا دوست، اس کا انتقام
آگ وہ برسائے گا جس سے اماں کوئی نہیں

عمر بھر کرکے لہو سے آبیاریٔ چمن
آج کل سنتے ہیں اپنا گلستاں کوئی نہیں

کہہ رہی ہیں بھیڑ کی بے سمت آوازیں کہ لوگ
منہ میں بس اک عضو رکھتے ہیں، زباں کوئی نہیں!

چاندنی پھیکی سی ہے، کہتے ہیں الٹا کر نقاب
آپ سا معصوم ہائے جانِ جاں کوئی نہیں

ہاں یقیناً سوز میں تھی کچھ کمی باقی کہ جو
عرش تک راحلؔ کبھی پہنچی فغاں کوئی نہیں!
واہ عزیزم احسن ، ماشاء اللہ دلی داد ،جو روکے نہ رکے ،پیش خدمت ہے۔
اللہم زد فزد ۔
 
راحل بھائی !
اِس غزل کو خراج ِ عقیدت اور داد و تحسین کا ہدیہ پیش کرنے کے لیے مجھے بس یہی سُوجھی کہ اِ سے گرافکس سے سجاکر یہاں پیش کردوں۔غزل کے تمام اشعار اوربالخصوص جن کی نشاندہی یاسر بھائی نے فرمائی ، اِس گراں قدراور مبنی برحقیقت نگارش کی جان ہیں ۔خدا آپ کے فکر کی تنویر سے اہلِ بصر کے قلوب و اذہان منور رکھے ،آمین:
 

الف نظامی

لائبریرین
سب ہی اندازے لگا کر دیں گے ہمدردی کی بھیک
جس پہ گزری اس سے سنتا داستاں کوئی نہیں

بہت خوب!

یہ شعر یاد آگیا

اتنی تسکیں پسِ فریاد کہاں ملتی ہے
کوئی مائل بہ سماعت ہے یہ دل جان گیا
(نصیر الدین نصیر)
 

الف عین

لائبریرین
ظلمتِ شب میں اجالے کا نشاں کوئی نہیں
اب شکست اور حوصلے کے درمیاں کوئی نہیں

آسماں سے مت الجھنا دوست، اس کا انتقام
آگ وہ برسائے گا جس سے اماں کوئی نہیں

عمر بھر کرکے لہو سے آبیاریٔ چمن
آج کل سنتے ہیں اپنا گلستاں کوئی نہیں

کہہ رہی ہیں بھیڑ کی بے سمت آوازیں کہ لوگ
منہ میں بس اک عضو رکھتے ہیں، زباں کوئی نہیں!

سب ہی اندازے لگا کر دیں گے ہمدردی کی بھیک
جس پہ گزری اس سے سنتا داستاں کوئی نہیں!

چاندنی پھیکی سی ہے، کہتے ہیں الٹا کر نقاب
آپ سا معصوم ہائے جانِ جاں کوئی نہیں

ہاں یقیناً سوز میں تھی کچھ کمی باقی کہ جو
عرش تک راحلؔ کبھی پہنچی فغاں کوئی نہیں!
ماشاء اللہ کیا عمدہ غزل ہے، مبارکباد
 
Top