محمد احسن سمیع راحلؔ
محفلین
ظلمتِ شب میں اجالے کا نشاں کوئی نہیں
اب شکست اور حوصلے کے درمیاں کوئی نہیں
آسماں سے مت الجھنا دوست، اس کا انتقام
آگ وہ برسائے گا جس سے اماں کوئی نہیں
عمر بھر کرکے لہو سے آبیاریٔ چمن
آج کل سنتے ہیں اپنا گلستاں کوئی نہیں
کہہ رہی ہیں بھیڑ کی بے سمت آوازیں کہ لوگ
منہ میں بس اک عضو رکھتے ہیں، زباں کوئی نہیں!
سب ہی اندازے لگا کر دیں گے ہمدردی کی بھیک
جس پہ گزری اس سے سنتا داستاں کوئی نہیں!
چاندنی پھیکی سی ہے، کہتے ہیں الٹا کر نقاب
آپ سا معصوم ہائے جانِ جاں کوئی نہیں
ہاں یقیناً سوز میں تھی کچھ کمی باقی کہ جو
عرش تک راحلؔ کبھی پہنچی فغاں کوئی نہیں!
اب شکست اور حوصلے کے درمیاں کوئی نہیں
آسماں سے مت الجھنا دوست، اس کا انتقام
آگ وہ برسائے گا جس سے اماں کوئی نہیں
عمر بھر کرکے لہو سے آبیاریٔ چمن
آج کل سنتے ہیں اپنا گلستاں کوئی نہیں
کہہ رہی ہیں بھیڑ کی بے سمت آوازیں کہ لوگ
منہ میں بس اک عضو رکھتے ہیں، زباں کوئی نہیں!
سب ہی اندازے لگا کر دیں گے ہمدردی کی بھیک
جس پہ گزری اس سے سنتا داستاں کوئی نہیں!
چاندنی پھیکی سی ہے، کہتے ہیں الٹا کر نقاب
آپ سا معصوم ہائے جانِ جاں کوئی نہیں
ہاں یقیناً سوز میں تھی کچھ کمی باقی کہ جو
عرش تک راحلؔ کبھی پہنچی فغاں کوئی نہیں!