محمد تابش صدیقی
منتظم
عبث ہے دوڑ یہ آسائشِ جہاں کے لیے
کہ یہ جہان بنا ہی ہے امتحاں کے لیے
ہوا کی زد میں نشیمن ہے اب تو ڈر کیسا
چنی تھی شاخِ بلند اپنے آشیاں کے لیے
وہ آبیاری کرے یا کوئی کلی مسلے
بنا ہے باغ ہی سارا یہ باغباں کے لیے
ہے شور تب سے مری بے حسی کا دنیا میں
بچا لیے تھے کچھ آنسو غمِ نہاں کے لیے
نکھار آتا ہے خصلت میں نقد سے تابشؔ
اسی لیے میں دعاگو ہوں ناصحاں کے لیے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی
کہ یہ جہان بنا ہی ہے امتحاں کے لیے
ہوا کی زد میں نشیمن ہے اب تو ڈر کیسا
چنی تھی شاخِ بلند اپنے آشیاں کے لیے
وہ آبیاری کرے یا کوئی کلی مسلے
بنا ہے باغ ہی سارا یہ باغباں کے لیے
ہے شور تب سے مری بے حسی کا دنیا میں
بچا لیے تھے کچھ آنسو غمِ نہاں کے لیے
نکھار آتا ہے خصلت میں نقد سے تابشؔ
اسی لیے میں دعاگو ہوں ناصحاں کے لیے
٭٭٭
محمد تابش صدیقی