محمد شکیل خورشید
محفلین
ایک تازہ غزل احباب کی نذر
عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی
انسیت جب بڑھی ہے تھوڑی سی
اب تسلی ہوئی ہے تھوڑی سی
بات آگے چلی ہے تھوڑی سی
پھر تری یاد کے دریچے سے
زندگی دیکھ لی ہے تھوڑی سی
ان سے کچھ عشق وِشق تھوڑا ہے
یونہی دیوانگی ہے تھوڑی سی
چار پل ان کے ساتھ جینے کو
زندگی مانگ لی ہے تھوڑی سی
شہر تاریک ہے بہت یہ شکیل
روشنی بانٹنی ہے تھوڑی سی
عرضِ احوال کی ہے تھوڑی سی
انسیت جب بڑھی ہے تھوڑی سی
اب تسلی ہوئی ہے تھوڑی سی
بات آگے چلی ہے تھوڑی سی
پھر تری یاد کے دریچے سے
زندگی دیکھ لی ہے تھوڑی سی
ان سے کچھ عشق وِشق تھوڑا ہے
یونہی دیوانگی ہے تھوڑی سی
چار پل ان کے ساتھ جینے کو
زندگی مانگ لی ہے تھوڑی سی
شہر تاریک ہے بہت یہ شکیل
روشنی بانٹنی ہے تھوڑی سی