غزل: عکس تیرا نظر میں باقی ہے

احباب گرامی ، سلام عرض ہے !
ایک ہلکی پھلکی غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .

عکس تیرا نظر میں باقی ہے
یعنی سودا بھی سَر میں باقی ہے

گو ستارے سجے ہیں پلکوں پر
ایک وحشت سی گھر میں باقی ہے

رو كے بھی جی نہیں ہوا ہلکا
کوئی کانٹا جگر میں باقی ہے

گھر اجڑ کر بسا تو ہے لیکن
ٹِیس دیوار و دَر میں باقی ہے

شوقِ منزل کو یہ کہاں پروا
کتنا رستہ سفر میں باقی ہے

آسمانوں کو آزما ، طائر
تاب گر بال و پر میں باقی ہے

کشتیاں زد میں آ كے ڈوب گئیں
اور تنکا بھنور میں باقی ہے

آندھیاں آئینگی کچھ اور ابھی
ایک پتہ شجر میں باقی ہے

کون کہتا ہے آج بھی عابدؔ
آدمیّت بشر میں باقی ہے

نیازمند،
عرفان عابدؔ
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
واہ ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ، عرفان بھائی !
ویسے ٹیس والا مصرع مجھے کچھ غریب سا لگا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں روایتی زبان برتنے کا عادی ہوں ۔ شعر کا مضمون اچھا ہے۔
 
واہ ! بہت خوب! اچھے اشعار ہیں ، عرفان بھائی !
ویسے ٹیس والا مصرع مجھے کچھ غریب سا لگا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں روایتی زبان برتنے کا عادی ہوں ۔ شعر کا مضمون اچھا ہے۔
ظہیر بھائی ، اظہار خیال اور داد كے لیے بے حد ممنون ہوں . بہت شکریہ !
 
Top