عرفان علوی
محفلین
احباب گرامی ، سلام عرض ہے .
ایک غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک
میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک
حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک
نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک
چُھٹا چمن تو گیا رُو ئے گُل سے وہ یکسر
کہ جو نکھار تھا صحنِ چمن میں رہنے تک
دیارِ غیر میں آ کر وہ کیا پھلے پھولے
رہا جو بے سَر و ساماں وطن میں رہنے تک
جدا ہوئے تو یہ وعدہ تمہارا یاد آیا
جدا نہ ہونگے کبھی روح تن میں رہنے تک
نجات نیشِ بہاراں سے دشت ہی دیگا
میں بے قرار رہونگا چمن میں رہنے تک
کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک
بنے جو ذہن میں نقشِ جدید تو کیسے
خیالِ خوبیٔ نقشِ کہن میں رہنے تک
جلیگا خونِ جگر راہ میں بہت عابدؔ
تلاشِ منزلِ تکمیلِ فن میں رہنے تک
نیازمند ،
عرفان عابدؔ
ایک غزل پیش خدمت ہے . ملاحظہ فرمائیے اور اپنی رائے سے نوازیے .
غموں سے جنگ رہی جاں بدن میں رہنے تک
مجھے اماں نہ ملی ، آہ ! رن میں رہنے تک
میں اٹھ گیا تو وہ خاموشیوں میں ڈوب گیا
جو شور و شر تھا مرے انجمن میں رہنے تک
حیات و موت کی فکروں سے تھا فرار قریب
مگر تھا خوف بھی دار و رسن میں رہنے تک
نکل كے گھر سے یہ احساس ہو رہا ہے مجھے
میں زندہ لاش تھا گھر کی گھٹن میں رہنے تک
چُھٹا چمن تو گیا رُو ئے گُل سے وہ یکسر
کہ جو نکھار تھا صحنِ چمن میں رہنے تک
دیارِ غیر میں آ کر وہ کیا پھلے پھولے
رہا جو بے سَر و ساماں وطن میں رہنے تک
جدا ہوئے تو یہ وعدہ تمہارا یاد آیا
جدا نہ ہونگے کبھی روح تن میں رہنے تک
نجات نیشِ بہاراں سے دشت ہی دیگا
میں بے قرار رہونگا چمن میں رہنے تک
کِھلے وہ آ كے ترے پیرہن میں آخر کار
جو رنگ ماند تھے سرو و سمن میں رہنے تک
بنے جو ذہن میں نقشِ جدید تو کیسے
خیالِ خوبیٔ نقشِ کہن میں رہنے تک
جلیگا خونِ جگر راہ میں بہت عابدؔ
تلاشِ منزلِ تکمیلِ فن میں رہنے تک
نیازمند ،
عرفان عابدؔ