اقبال عظیم غزل: غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم

غم تو ہے لیکن غمِ پیہم نہیں ہے، کم سے کم
آنکھ شاید نم ہو، دامن نم نہیں ہے، کم سے کم

زخمِ دل اپنی جگہ باقی ہے، یہ سچ ہے مگر
زخمِ دل کو حاجتِ مرہم نہیں ہے، کم سے کم

یہ نہیں کہتا کہ میں ہر رنج سے محفوظ ہوں
لیکن اب مافات کا ماتم نہیں ہے، کم سے کم

دل کا عالم آج بھی بے شک بہت مشکوک ہے
جو کبھی پہلے تھا وہ عالم نہیں ہے، کم سے کم

آپ نے کوشش نہ فرمائی سمجھنے کی کبھی
ورنہ میری داستاں مبہم نہیں ہے، کم سے کم

وہ سرِ راہے سہی، رسماً سہی، پرسش تو کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ برہم نہیں ہے، کم سے کم

اور کوئی فائدہ محرومیوں کا ہو نہ ہو
اب مجھے احساسِ بیش و کم نہیں ہے، کم سے کم

یوں بظاہر زندگی سے مطمئن کوئی نہیں
آرزو جینے کی پھر بھی کم نہیں ہے، کم سے کم

مختلف ہوتا ہے سب سے کج کلاہوں کا مزاج
زخم خوردہ ہوں، مگر سر خم نہیں ہے، کم سے کم

مثلِ گل دل خون ہے اقبالؔ لیکن شکر ہے
مثلِ شبنم گریۂ کم کم نہیں ہے، کم سے کم

٭٭٭
اقبالؔ عظیم
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوبصورت! کیا اچھے اشعار ہیں ! کیا بات ہے اقبال عظیم کی!

وہ سرِ راہے سہی ، رسماً سہی ، پرسش تو کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ برہم نہیں ہے،کم سے کم

تابش بھائی یہ شعر میں نے یوں پڑھا ہوا یا سنا ہوا ہے ۔ وقت ملے تو دیکھئے گا ۔

ہاں سرِ راہے سہی ، رسماً سہی ، پرسش تو کی
یہ بھی کیا کم ہے کہ وہ برہم نہیں ہے، کم سے کم
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میں اپنے "ذخائر" میں چیک کرتا ہوں تابش بھائی ۔ شاید میں نے یہ غزل اقبال عظیم ہی کی آواز میں سنی ہو ۔
ویسے "وہ" کے ساتھ تو مصرع کی کوئی تک نہیں بنتی۔ بعض اوقات کتاب میں بھی غلطی رہ جاتی ہے پروف ریڈنگ سے ۔
 
Top