غزل : فلک پر چاندنی ہے اور ستارے رقص کرتے ہیں

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن


فلک پر چاندنی ہے اور ستارے رقص کرتے ہیں
کسی کے حکم پر سارے کے سارے رقص کرتے ہیں

یہ کل شب بر سر پیکار تھے طوفاں کی موجوں سے
وہی جو آج دریا کے کنارے رقص کرتے ہیں

بہت عرصہ ہوا دیکھی تھی میں نے اک حسیں وادی
مری آنکھوں میں اب تک وہ نظارے رقص کرتے ہیں

نہ جانے آج کیسی لہر اس کے دل میں اٹھی ہے
سمندر جھومتا ہے اور کنارے رقص کرتے ہیں

یقیں ہے بزمِ انجم کا کوئی تو ایسا محور ہے
زمین و آسماں جس کے سہارے رقص کرتے ہیں​
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے لیکن اس سے بہتر غزلیں بھی کہہ چکے ہیں حفیظ۔ اس میں شاید ردیف نبھانے کی مجبوری رہی ہو گی۔
 
Top