فرحان محمد خان
محفلین
غزل
قصۂ اہلِ جنوں کوئی نہیں لِکھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لکھے گا
وحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سوزِ درُوں، کوئی نہیں لکھے گا
کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟
سر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لکھے گا
کوئی لکھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لکھے گا
خلقتِ شہر سر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لکھے گا
عرضیاں ساری نظر میں ہیں رجز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں کیوں ، کوئی نہیں لکھے گا
شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
میں ہی لکھوں تو لکھوں، کوئی نہیں لکھے گا
بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسم میں
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لکھے گا
قصۂ اہلِ جنوں کوئی نہیں لِکھے گا
جیسے ہم لِکھتے ہیں، یُوں کوئی نہیں لکھے گا
وحشتِ قلبِ تپاں کیسے لکھی جائے گی!
حالتِ سوزِ درُوں، کوئی نہیں لکھے گا
کیسے ڈھہ جاتا ہے دل، بُجھتی ہیں آنکھیں کیسے؟
سر نوِشتِ رگِ خُوں، کوئی نہیں لکھے گا
کوئی لکھے گا نہیں ، کیوں بڑھی، کیسے بڑھی بات؟
کیوں ہُوا درد فزُوں؟ کوئی نہیں لکھے گا
خلقتِ شہر سر آنکھوں پہ بِٹھاتی تھی جنہیں
کیوں ہُوئے خوار و زبُوں؟ کوئی نہیں لکھے گا
عرضیاں ساری نظر میں ہیں رجز خوانوں کی
سب خبر ہے ہمیں کیوں ، کوئی نہیں لکھے گا
شہر آشُوب کے لکھنے کو جگر چاہیے ہے
میں ہی لکھوں تو لکھوں، کوئی نہیں لکھے گا
بے اثر ہوتے ہُوئے حرف کے اِس موسم میں
کیا کہُوں،کس سے کہُوں، کوئی نہیں لکھے گا
افتخار عارف