عظیم اللہ قریشی
محفلین
السلام علیکم بندہ اپنی شاعری کے سیکشن میں حاضر خدمت ہے قیامت کا قیام کرنا
غالب قد یار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
جب تک نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا
خواجہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں (اے زاہد طوبیٰ سے تیر مراد بہشت کا درخت ہے اور میری مراد محبوب کا قد ہے پس ہر شخص اپنی ہمت کے مطابق سوچتا ہے)۔
تو و طوبیٰ و ما و قامت یار
فکر ہرکس بقدر ہمت اوست
اور ہم باباجی کہتے ہیں
جب قیامت قیام کرتی ہے
وقت سے ہم کلام کرتی ہے
یوں تو آفت ہے یہ محبت بھی
کیسے کیسے انعام کرتی ہے
آدمی آدمی نہیں رہتا
یہ تیری یاد کام کرتی ہے
تیرے کوچے سے جو گذر آیا
اس کو دنیا سلام کرتی ہے
تیری قربت کمال کرتی ہے
زندگانی دوام کرتی ہے
تیری زلفوں کی چھاؤں ایسی ہے
وقت کا جو امام کرتی ہے
اس کی خواہش عجیب خواہش ہے
خواہشوں کو تمام کرتی ہے
یہ محبت جہاں بھی ہوتی ہے
کیسے کیسے یہ کام کرتی ہے
کیف و مستی سرور ہے بابا
یاد وہ صبح شام کرتی ہے۔
غالب قد یار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
جب تک نہ دیکھا تھا قد یار کا عالم
میں معتقد فتنہ محشر نہ ہوا تھا
خواجہ حافظ شیرازی فرماتے ہیں (اے زاہد طوبیٰ سے تیر مراد بہشت کا درخت ہے اور میری مراد محبوب کا قد ہے پس ہر شخص اپنی ہمت کے مطابق سوچتا ہے)۔
تو و طوبیٰ و ما و قامت یار
فکر ہرکس بقدر ہمت اوست
اور ہم باباجی کہتے ہیں
جب قیامت قیام کرتی ہے
وقت سے ہم کلام کرتی ہے
یوں تو آفت ہے یہ محبت بھی
کیسے کیسے انعام کرتی ہے
آدمی آدمی نہیں رہتا
یہ تیری یاد کام کرتی ہے
تیرے کوچے سے جو گذر آیا
اس کو دنیا سلام کرتی ہے
تیری قربت کمال کرتی ہے
زندگانی دوام کرتی ہے
تیری زلفوں کی چھاؤں ایسی ہے
وقت کا جو امام کرتی ہے
اس کی خواہش عجیب خواہش ہے
خواہشوں کو تمام کرتی ہے
یہ محبت جہاں بھی ہوتی ہے
کیسے کیسے یہ کام کرتی ہے
کیف و مستی سرور ہے بابا
یاد وہ صبح شام کرتی ہے۔