سودا غزل: لاتا ہے بزم میں وہ سخن بر زباں زبُوں ۔ سودا

فرخ منظور

لائبریرین
آج مرزا رفیع سودا کی ایک عجیب و غریب غزل نظر سے گزری ۔ مطلب تو کم ہی سمجھ میں آیا لیکن میں اس کے تلذذ میں گم ہو گیا۔ آپ بھی مزا لیجیے اور کوئی رائے دیجیے تاکہ کچھ سمجھنے سمجھانے کا سلسلہ نکل سکے۔

غزل

لاتا ہے بزم میں وہ سخن بر زباں زبُوں
سر جس سے ہو یہ خدمتِ فرزانگاں نگُوں

دنیا نہ لے سکے ہے ، نہ دیں ، مجھ سے دل مرا
میداں سے لے گئے ہیں یہ گو دل براں برُون

سنتا نہیں کسی کا کوئی دردِ دل کہیں
اب تجھ سوا میں جا کے خدایا کہاں کہوں

جوں گل نہیں ہے تازہ جنوں یاں کہ از عدم
لایا میں شکلِ غنچہ گریباں دراں درُوں

وعدے کے وصل کے یہ بڑھایا کہ ہو گیا
اسپک تلے فلک کے قدِ دل ستاں ستُوں

ایسے کو دل دیا ہے کہ کرنے کو مسترد
پھرتا ہوں گِرد اُس کے میں زاری کُناں کنُوں

یوسف کے غم میں رووے تھا یعقوب جس طرح
تجھ غم میں چاہتا ہے مرا ہر رُواں روؤں

دل عاشقِ غریب سے لے ، شکلِ آسیا
چاہے ہے یوں ہر ایک ز سنگیں دِلاں دَلُوں

ناصح کہے تھا راست کہ بد ہیں یہ خوب رُو
حاشا نہ بازی عشق کی پھر با بداں بدوُں

قطعہ
سودا سخن کو جامی کے میں اس میں کر کے نصب
مشہور اِس غزل کو کراں تا کراں کرُوں

اُس کا گہر ہے مجھ کنے اختر مرا بہ چرخ
نیکاں نمودہ میل بہ نیکاں بداں بدوُں

(مرزا رفیع سودا)
 

شاہ حسین

محفلین
لاجواب جناب سخنور صاحب ۔
نہایت عمدہ کلام ہے واقعی ہر شعر میں حضرت نے پہلی ہی بوجھوائی ہے پر کچھ اشعار ابھی بھی مخفی ہی ہیں ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!

انہی اساتذہ کے ہاتھوں اردو زبان صحیح معنوں میں زبان کہلوائی ہے۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
لاجواب جناب سخنور صاحب ۔
نہایت عمدہ کلام ہے واقعی ہر شعر میں حضرت نے پہلی ہی بوجھوائی ہے پر کچھ اشعار ابھی بھی مخفی ہی ہیں ۔

بہت شکریہ شاہ صاحب۔ کوشش کرتے ہیں ان پہیلیوں کو بوجھنے کی۔ :)

شکریہ فرخ صاحب خوبصورت غزل شیئر کرنے کیلیے!

انہی اساتذہ کے ہاتھوں اردو زبان صحیح معنوں میں زبان کہلوائی ہے۔

بالکل درست فرمایا وارث صاحب۔ انہی کے طفیل آج اردو کروڑوں لوگوں کی زبان ہے۔

بہت شکریہ فرخ بھائی!

واقعی استادانہ کلام شاید اسی کو کہتے ہیں۔

بہت شکریہ احمد بھائی!

اور مجھے تو سمجھ میں ہی نہیں آئی:confused:

کوشش کریں آ جائی گی سمجھ۔ اگر مکمل نہ بھی آئی تو کچھ تو سمجھ آئے گی۔
 
Top