غزل : لبِ دریا کوئی ملا ہی نہیں از: نویدظفرکیانی

لبِ دریا کوئی ملا ہی نہیں
مجھ سا تشنہ کوئی ملا ہی نہیں
عمرِ رفتہ کی ہے خبر کس کو
جانے والا کوئی ملا ہی نہیں
دل کی روداد آنسوؤں سے لکھی
اور خامہ کوئی ملا ہی نہیں
فکرِ منزل سے جان چھوٹ گئی
ہم کو رستہ کوئی ملا ہی نہیں
قفل شکنی نہ ہو سکی دل کی
تیرے جیسا کوئی ملا ہی نہیں
======
نویدظفرکیانی
======
 
Top