میرا جی غزل - لب پہ ھے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ھے (میرا جی)

لب پہ ھے فریاد کہ ساقی یہ کیسا مے خانہ ھے
رنگ خون دل نہیں چمکا ، گردش میں پیمانہ ھے

مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ھے فریب امیدوں کا
اس کو یہاں سے کون نکالے ، یہ تو صاحب خانہ ھے

ایسی باتیں اور سے جا کر کہئے تو کچھ بات بھی ھے
اس سے کہے کیا حاصل جس کو سچ بھی تمہارا بہانہ ھو

طور اطوار انوکھے اس کے ، کس بستی سے آیا ھے
پاؤں میں لغزش کوئی نہیں ھے یہ کیسا مستانہ ھے

مے خانے کی جھلمل کرتی شمعیں دل میں کہتی ھیں
ہم وہ رند ھیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ھے

میرا جی
 

حسرت جاوید

محفلین
مٹ بھی چکیں امیدیں مگر باقی ھے فریب امیدوں کا
اس کو یہاں سے کون نکالے ، یہ تو صاحب خانہ ھے

مے خانے کی جھلمل کرتی شمعیں دل میں کہتی ھیں
ہم وہ رند ھیں جن کو اپنی حقیقت بھی افسانہ ھے
بہت عمدہ۔
 
Top