منذر رضا
محفلین
السلام علیکم !
ایک غزل پیش ہے:
ایک غزل پیش ہے:
لوحِ احساس کی صورت سرِ قرطاس بھی آئے
جو مرے دل کا مکیں ہے، وہ مرے پاس بھی آئے
نہیں معلوم چنا کون سا کس شہ نے مگر
میرے اشکوں میں کئی گوہر و الماس بھی آئے
ساتھ حق ہی کا دیا، چشمِ گہر بار جو تھی
رشوتیں لے کے کئی معتبر اشخاص بھی آئے
شہر چھوڑ آئے ہیں آشفتہ سری میں ہم لوگ
بس دعا یہ ہے کہ صحرا کی فضا راس بھی آئے
کم سے کم حالِ دلِ زار کہوں گا کھل کر
دہرِ بے درد میں مجھ سا کوئی حساس بھی آئے
قدر ہو جائے ہماری بھی زر و سیم کی طرح
گر جہاں میں کوئی اک طالبِ اخلاص بھی آئے
جو مرے دل کا مکیں ہے، وہ مرے پاس بھی آئے
نہیں معلوم چنا کون سا کس شہ نے مگر
میرے اشکوں میں کئی گوہر و الماس بھی آئے
ساتھ حق ہی کا دیا، چشمِ گہر بار جو تھی
رشوتیں لے کے کئی معتبر اشخاص بھی آئے
شہر چھوڑ آئے ہیں آشفتہ سری میں ہم لوگ
بس دعا یہ ہے کہ صحرا کی فضا راس بھی آئے
کم سے کم حالِ دلِ زار کہوں گا کھل کر
دہرِ بے درد میں مجھ سا کوئی حساس بھی آئے
قدر ہو جائے ہماری بھی زر و سیم کی طرح
گر جہاں میں کوئی اک طالبِ اخلاص بھی آئے
آخری تدوین: