غزل---لوحِ احساس کی صورت سرِ قرطاس بھی آئے

منذر رضا

محفلین
السلام علیکم !
ایک غزل پیش ہے:


لوحِ احساس کی صورت سرِ قرطاس بھی آئے
جو مرے دل کا مکیں ہے، وہ مرے پاس بھی آئے

نہیں معلوم چنا کون سا کس شہ نے مگر
میرے اشکوں میں کئی گوہر و الماس بھی آئے

ساتھ حق ہی کا دیا، چشمِ گہر بار جو تھی
رشوتیں لے کے کئی معتبر اشخاص بھی آئے

شہر چھوڑ آئے ہیں آشفتہ سری میں ہم لوگ
بس دعا یہ ہے کہ صحرا کی فضا راس بھی آئے

کم سے کم حالِ دلِ زار کہوں گا کھل کر
دہرِ بے درد میں مجھ سا کوئی حساس بھی آئے

قدر ہو جائے ہماری بھی زر و سیم کی طرح
گر جہاں میں کوئی اک طالبِ اخلاص بھی آئے
 
آخری تدوین:

منذر رضا

محفلین
واہ! بہت خوب !
اچھے اشعار ہیں منذر رضا !
آخری شعر کا مصرع ثانی وزن میں نہیں ہے ۔ آپ کی توجہ چاہتا ہے ۔
حضرتِ بالا ظہیر احمد ظہیر وہ ٹایپنگ کی غلطی تھی جسے درست کر دیا۔
حوصلہ افزائی کے لیے ممنون ہوں، آپ کا بھی اور خلیل صاحب کا بھی
 
میاں، آپ ۱۸ سال کی عمر میں ایسی استادانہ غزلیں کہہ رہے ہیں، بزرگی کی عمر تک پہنچتے پہنچتے تو پتہ نہیں کیا غضب ڈھائیں گے :)
بہت خوب! ماشاءاللہ ۔۔۔ اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!
 
السلام علیکم !
ایک غزل پیش ہے:


لوحِ احساس کی صورت سرِ قرطاس بھی آئے
جو مرے دل کا مکیں ہے، وہ مرے پاس بھی آئے

نہیں معلوم چنا کون سا کس شہ نے مگر
میرے اشکوں میں کئی گوہر و الماس بھی آئے

ساتھ حق ہی کا دیا، چشمِ گہر بار جو تھی
رشوتیں لے کے کئی معتبر اشخاص بھی آئے

شہر چھوڑ آئے ہیں آشفتہ سری میں ہم لوگ
بس دعا یہ ہے کہ صحرا کی فضا راس بھی آئے

کم سے کم حالِ دلِ زار کہوں گا کھل کر
دہرِ بے درد میں مجھ سا کوئی حساس بھی آئے

قدر ہو جائے ہماری بھی زر و سیم کی طرح
گر جہاں میں کوئی اک طالبِ اخلاص بھی آئے
ماشاء اللہ !
 
Top