غزل : لکھوں جو حرف ، گرتے ہیں آنسو یہ اور بات - بیدل حیدری

غزل
لکھوں جو حرف ، گرتے ہیں آنسو یہ اور بات
کاغذ پہ رقص کرتے ہیں جگنو یہ اور بات

یہ اور بات میں تجھے کب کا بھلا چکا
بھولا نہیں ہے پھر بھی مجھے تُو یہ اور بات

کلیوں کے روپ میں کہیں پھولوں کی شکل میں
تجسیم ہو گئی تری خوشبو یہ اور بات

مَلاح کا مشن تو ڈبونا تھا ناؤ کو
پتوار بن گئے ترے بازو یہ اور بات

صحرا کا ایک پیڑ بڑا نغمہ ریز ہے
اک راگنی کا نام ہے پیلو یہ اور بات

بیدلؔ ہر اک زباں مری اپنی زبان ہے
ہر چند ہوں میں شاعرِ اُردو یہ اور بات
بیدل حیدری
 
Top