غزل : لے آئی ہم کو گردشِ دوراں کباڑ میں : از محمد حفیظ الرحمٰن

غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

لے آئی ہم کو گردشِ دوراں کباڑ میں
اب ڈھونڈیئے حیات کے ساماں کباڑ میں

گدڑی کا لعل گر نہ کہیں ، ان کو کیا کہیں
دیکھے ہیں ہم نے لعلِ بدخشاں کباڑ میں

ڈھونڈا عبث علاجِ غمِ دل جگہ جگہ
رکھا تھا جبکہ درد کا درماں کباڑ میں

چاہِ ذقن و چاہِ زنخداں کی کیا کہیں
جب رُل رہے ہوں ابرو و مژگاں کباڑ میں

یاروں نے پھر پلٹ کے ہماری خبر نہ لی
رکھا ہو جیسے فالتو ساماں کباڑ میں

دورِ فلک نے دن یہ دکھایا ہمیں حفیظؔ
اب ہم ہیں اور تصورِ جاناں کباڑ میں
 
مدیر کی آخری تدوین:

ندیم مراد

محفلین
غزل اپنے موضوع کے اعتبار سے بہت اچھی ہے
صرف ردیف پسند نہیں ائی اگرچہ کہ آپ نے اسے اچھا نبھایا
اچھے اور خوبصورت الفاظ کا چناؤ بھی شاعری کا حصہ ہے
اچھی غزل کہنے پر داد قبول کیجئے
 
جناب ندیم مراد صاحب۔ غزل کی پسندیدگی کا بہت بہت شکریہ۔ ردیف کے بارے میں آپ کا اعتراض بالکل درست ہے۔ اصل میں یہ غزل ایک رات سوتے سے اٹھ کر لکھی تھی۔ تقریبا رات کے ساڑھے تین بجے آنکھ کھل گئی اور یہ غزل خود بخود بننے لگی۔ چونکہ آمد تھی اس لیےاس میں کوئی ترمیم نہیں کی۔ ردیف ہی کے باعث اس کو ایک طویل عرصے تک محفل میں نہیں لایا۔ آخر مجبور ہو گیا اور اسے محفل میں لے ہی آیا۔ داد کا بےحد شکریہ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
یاروں نے پھر پلٹ کے ہماری خبر نہ لی
رکھا ہو جیسے فالتو ساماں کباڑ میں

بہت ہی خوب ۔۔۔۔! کیا ہی بات ہے۔
 
غزل
از : محمد حفیظ الرحمٰن

لے آئی ہم کو گردشِ دوراں کباڑ میں
اب ڈھونڈیئے حیات کے ساماں کباڑ میں

گدڑی کا لعل گر نہ کہیں ، ان کو کیا کہیں
دیکھے ہیں ہم نے لعلِ بدخشاں کباڑ میں

ڈھونڈا عبث علاجِ غمِ دل جگہ جگہ
رکھا تھا جبکہ درد کا درماں کباڑ میں

چاہِ ذقن و چاہِ زنخداں کی کیا کہیں
جب رُل رہے ہوں ابرو و مژگاں کباڑ میں

یاروں نے پھر پلٹ کے ہماری خبر نہ لی
رکھا ہو جیسے فالتو ساماں کباڑ میں

دورِ فلک نے دن یہ دکھایا ہمیں حفیظؔ
اب ہم ہیں اور تصورِ جاناں کباڑ میں
آہا، حفیظ آپ نے سب کو دکھا دیا
کیا کیا خزینہ رکھا تھا پنہاں کباڑ میں
 
برسوں پھرے ہیں ہم تو حراساں کباڑ میں
پر ڈھنگ کا ملا نہیں ساماں کباڑ میں

گلشن کو چل کے جا نہ سکے ہم بہ پائے خود
اور جا رہے ہیں ابکہ خراماں کباڑ میں
!!
 

طارق شاہ

محفلین
برسوں پھرے ہیں ہم تو حراساں کباڑ میں
پر ڈھنگ کا ملا نہیں ساماں کباڑ میں

گلشن کو چل کے جا نہ سکے ہم بہ پائے خود
اور جا رہے ہیں ابکہ خراماں کباڑ میں
!!

پانے کی جستجو میں تھے گرداں کباڑ میں
پایا نہ اِک بھی کام کا ساماں کباڑ میں

گلشن کو چل کے جا نہ سکیں ہم بہ پائے خود
لوگوں سے جب کہا بھی تو پھینکا کباڑ میں

یہ ہماری بذلہ سنجی :

لوگوں کی بھیڑ دیکھ کے نالاں ہوئے وہ یوں
ملنے کو ہم سے کہہ کے گئے ہیں کباڑ میں

:)
 
پانے کی جستجو میں تھے گرداں کباڑ میں
پایا نہ اِک بھی کام کا ساماں کباڑ میں

گلشن کو چل کے جا نہ سکیں ہم بہ پائے خود
لوگوں سے جب کہا بھی تو پھینکا کباڑ میں

یہ ہماری بذلہ سنجی :

لوگوں کی بھیڑ دیکھ کے نالاں ہوئے وہ یوں
ملنے کو ہم سے کہہ کے گئے ہیں کباڑ میں

:)
واہ! گو اگر مقفی ہوجاتے تو مزہ دو آتشہ ہو جاتا شاہ صاحب۔ لیکن واہ، کیا موضوع لائے ہیں آپ کباڑ کے عنوان سے۔ یعنی آپ نے تو ہمیں بھی کباڑ میں شامل فرما دیا! :)
 
Top