فرحان محمد خان
محفلین
غزل
گلِ پژمردہ کو اک بادِ صبا کیا دیتی
مانگ بھی لیتے اگر ہم تو دعا کیا دیتی
وسوسوں اور سوالوں کے سوا کیا دیتی
عقل کامل بھی اگر ہوتی بھلا کیا دیتی
بے نیازی ہی مقدر ہے ہمارا شاید
تیری مخلوق ہمیں تجھ سےجدا کیا دیتی
بے نواؤں کی خدا تک نہیں جاتی فریاد
بے نواؤں کو بھلا خلقِ خدا کیا دیتی
اپنے اجداد کی قبروں سے بھی گھن آتی ہے
اور کہیے ہمیں مغرب کی ہوا کیا دیتی
کہہ رہی تھی سرِ بازار طوائف زادی
پیٹ بھرنے کو مجھے میری حیا کیا دیتی
لوٹ آئے ہیں درِ یار سے ،دستک نہیں دی
جہاں احساس نہ کام آئے صدا کیا دیتی
زندگی گزری سلگتی ہوئی سگرٹ کی طرح
اس سے بڑھ کر مجھے یک طرفہ وفا کیا دیتی
اتنا کافی ہے کہ زندہ ہوں ترے بعد بھی میں
زندگی اور مجھے جینے کی سزا کیا دیتی
تیرگی میرا مقدر ہے ، مجھے آس سے کیا
عارضی شمع مرے گھر کو ضیا کیا دیتی
گلِ پژمردہ کو اک بادِ صبا کیا دیتی
مانگ بھی لیتے اگر ہم تو دعا کیا دیتی
وسوسوں اور سوالوں کے سوا کیا دیتی
عقل کامل بھی اگر ہوتی بھلا کیا دیتی
بے نیازی ہی مقدر ہے ہمارا شاید
تیری مخلوق ہمیں تجھ سےجدا کیا دیتی
بے نواؤں کی خدا تک نہیں جاتی فریاد
بے نواؤں کو بھلا خلقِ خدا کیا دیتی
اپنے اجداد کی قبروں سے بھی گھن آتی ہے
اور کہیے ہمیں مغرب کی ہوا کیا دیتی
کہہ رہی تھی سرِ بازار طوائف زادی
پیٹ بھرنے کو مجھے میری حیا کیا دیتی
لوٹ آئے ہیں درِ یار سے ،دستک نہیں دی
جہاں احساس نہ کام آئے صدا کیا دیتی
زندگی گزری سلگتی ہوئی سگرٹ کی طرح
اس سے بڑھ کر مجھے یک طرفہ وفا کیا دیتی
اتنا کافی ہے کہ زندہ ہوں ترے بعد بھی میں
زندگی اور مجھے جینے کی سزا کیا دیتی
تیرگی میرا مقدر ہے ، مجھے آس سے کیا
عارضی شمع مرے گھر کو ضیا کیا دیتی
فرحان محمد خان
آخری تدوین: