فرحان محمد خان
محفلین
مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا
نئے اور پُر اذیّت منظروں سے ڈر نہیں لگتا
خموشی کے ہیں آنگن اور سنّاٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے
کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا
سمندر چیختا رہتا ہے پسِ منظر میں اور مجھ کو
اندھیرے میں اکیلے ساحلوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ کیسے لوگ ہیں صدیوں کی ویرانی میں رہتے ہیں
انھیں کمروں کی بوسیدہ چھتوں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے کچھ ایسی آنکھیں چاہئیں اپنے رفیقوں میں
جنھیں بیباک سچّے آئنوں سے ڈر نہیں لگتا
مرے پیچھے کہاں آئے ہو نامعلوم کی دُھن میں
تمھیں کیا ان اندھیرے راستوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ ممکن ہے وہ ان کو موت کی سرحد پہ لے جائیں
پرندوں کو مگر اپنے پروں سے ڈر نہیں لگتا
نئے اور پُر اذیّت منظروں سے ڈر نہیں لگتا
خموشی کے ہیں آنگن اور سنّاٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے
کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا
سمندر چیختا رہتا ہے پسِ منظر میں اور مجھ کو
اندھیرے میں اکیلے ساحلوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ کیسے لوگ ہیں صدیوں کی ویرانی میں رہتے ہیں
انھیں کمروں کی بوسیدہ چھتوں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے کچھ ایسی آنکھیں چاہئیں اپنے رفیقوں میں
جنھیں بیباک سچّے آئنوں سے ڈر نہیں لگتا
مرے پیچھے کہاں آئے ہو نامعلوم کی دُھن میں
تمھیں کیا ان اندھیرے راستوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ ممکن ہے وہ ان کو موت کی سرحد پہ لے جائیں
پرندوں کو مگر اپنے پروں سے ڈر نہیں لگتا
سلیم احمد