امین عاصم
محفلین
احباب کی خدمت میں ایک غزل حاضر ہے۔
مجھے تو اپنی ہی پس ماندگی نے قتل کیا
میں روشنی تھا مجھے تیرگی نے قتل کیا
یہ بت بھی آج ہمارے لہو کے پیاسے ہیں
ہمیں تو اپنے فن ِ آزری نے قتل کیا
اجل بچھاتی رہی کیسے کیسے دام ِ فریب
'' قدم قدم پہ مجھے زندگی نے قتل کیا''
یہ کون شخص ہے چھایا ہُوا زمانے پر
وہی تو ہے جسے پچھلی صدی نے قتل کیا
میں سیکھ پایا نہ تھا رہنا بے ضمیروں میں
مجھے یہاں پہ مری آگہی نے قتل کیا
امین عاصمٓ