مہدی نقوی حجاز
محفلین
غزل (تازہ)
مجھ پہ پوری جو تو کھلی ہوئی ہے
آگ اوروں کو کیوں لگی ہوئی ہے
حالِ دل جاننے کی نعمتِ خاص
میرے رب سے مجھے ملی ہوئی ہے
شکر ہے میرے علم کی کشکول
میرے رحمٰن نے بھری ہوئی ہے
پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے
دے رہی ہے مری شہادت وہ
مجھ پہ انگلی اگر اٹھی ہوئی ہے
کپکپاتی اجل مرے آگے
ہاتھ باندھے ہوئے کھڑی ہوئی ہے
ایک ہڈّی ہمارے آگے ہے
اور وہ بھی گلی سڑی ہوئی ہے
ناسمجھ جبرئیل سے اک بار
گفتگو میری سرسری ہوئی ہے
وہ سمجھتا ہے میری سب باتیں
یار سے گفتگو مری ہوئی ہے
سات افلاک سے تو بس میرے
سر پہ اک چھاؤنی بنی ہوئی ہے
میں اگر چاہوں تو خدا بن جاؤں
یہ اجازت مجھے ملی ہوئی ہے
میرا رخ دیکھ کر نکلتا ہے
چاند پر ایسے روشنی ہوئی ہے
اس لیے پاک ہے حجازؔ کی ذات
کیونکہ اس ذات سے جڑی ہوئی ہے
مہدی نقوی حجازؔ
مجھ پہ پوری جو تو کھلی ہوئی ہے
آگ اوروں کو کیوں لگی ہوئی ہے
حالِ دل جاننے کی نعمتِ خاص
میرے رب سے مجھے ملی ہوئی ہے
شکر ہے میرے علم کی کشکول
میرے رحمٰن نے بھری ہوئی ہے
پی رہا ہوں شراب تو کیا ہے؟
مجھ کو رب کی رضا ملی ہوئی ہے
دے رہی ہے مری شہادت وہ
مجھ پہ انگلی اگر اٹھی ہوئی ہے
کپکپاتی اجل مرے آگے
ہاتھ باندھے ہوئے کھڑی ہوئی ہے
ایک ہڈّی ہمارے آگے ہے
اور وہ بھی گلی سڑی ہوئی ہے
ناسمجھ جبرئیل سے اک بار
گفتگو میری سرسری ہوئی ہے
وہ سمجھتا ہے میری سب باتیں
یار سے گفتگو مری ہوئی ہے
سات افلاک سے تو بس میرے
سر پہ اک چھاؤنی بنی ہوئی ہے
میں اگر چاہوں تو خدا بن جاؤں
یہ اجازت مجھے ملی ہوئی ہے
میرا رخ دیکھ کر نکلتا ہے
چاند پر ایسے روشنی ہوئی ہے
اس لیے پاک ہے حجازؔ کی ذات
کیونکہ اس ذات سے جڑی ہوئی ہے
مہدی نقوی حجازؔ